Deobandi Books

تذکرہ خواجۂ خواجگان ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

37 - 251
	اس کے بعد قومی اسمبلی کے دفاتر میں سب کمیٹی کا اجلاس تھا۔ ظہور الٰہیؒ، مفتی محمودؒ، پروفیسر غفور احمدؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، حفیظ پیرزادہؒ، مولانا کوثر نیازیؒ، افضل چیمہ شریک ہوئے۔ اجلاس میں جاتے وقت مولانا مفتی محمودؒ نے ہمیں (مولانا تاج محمودؒ) حکم فرمایا کہ آپ لوگ چل کر راجہ بازار میں مجلس عمل کی میٹنگ کریں۔ میں نے مفتی محمودؒ سے استدعا کی کہ سب کمیٹی کی مثبت یا منفی جو بھی کارروائی ہو ہمیں حکومت کے رویہ سے ضرور باخبر رکھیں۔ تاکہ اس کی روشنیء میں ہم مجلس عمل میں اپنی پالیسی طے کر سکیں۔ دارالعلوم (راجہ بازار) میں میٹنگ شروع ہوئی۔ آغا شورش کاشمیریؒ کی صحت ناساز تھی۔ وہ میٹنگ میں لیٹ کرشریک ہوئے۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ نے اجلاس کی صدارت فرمائی۔ سید مظفر علی شمسیؒ، سید محمود احمد رضویؒ، مولانا خواجہ خان محمدؒ، مولانا محمد شریف جالندھریؒ، سردار میر عالم خان لغاری، بندہ تاج محمودؒ، مفتی زین العابدینؒ، حکیم عبدالرحیم اشرفؒ، علی غضنفر کراروی، مولانا غلام اﷲ خانؒ، مولانا غلام علی اوکاڑویؒ، مولانا احسان الٰہی ظہیرؒ، مولانا عبید اﷲ انورؒ، نوابزادہ نصر اﷲ خانؒ، زمان خان اچکزئیؒ، مولانا محمد علی رضویؒ، مولانا عبدالرحمن جامعہ اشرفیہ، مولانا صاحبزادہ فضل رسول حیدر اور دوسرے کئی حضرات شریک اجلاس ہوئے۔ پوری مجلس عمل اس پر غور کر رہی تھی کہ اگر حکومت مطالبات تسلیم نہ کرے تو پھر ہمیں تحریک کو کن خطوط پر چلانا ہوگا اور اب مرزائیوں سے زیادہ حکومت سے مقابلہ ہوگا۔ سبھی حضرات تحفظ ناموس ختم نبوت کے لئے جان کی بازی لگانے پر تیار تھے۔ اتنے میں مولانا مفتی محمودؒ کا فون آگیا کہ حالات پر امید ہیں توقع ہے کہ سب کمیٹی کسی متفقہ مسودہ پر کامیاب ہو جائے گی۔ حفیظ پیرزادہ نے بھٹو صاحبؒ کو فون کر کے سب کمیٹی کی کارروائی سے باخبر کیا۔ بھٹو صاحبؒ نے تمام اراکین کمیٹی کو اپنے ہاں طلب کرلیا۔ تھوڑی دیر گفتگو ہوئی۔ بھٹو صاحبؒ نے تمام کا مؤقف سنا اور کہا کہ اب مزید وقت ضائع نہ کریں۔ رات بارہ بجے دوبارہ اجلاس ہوگا۔ آپ تمام حضرات تشریف لائیں۔ اس وقت دو ٹوک فیصلہ کریںگے۔ ہم لوگ اپنی میٹنگ سے فارغ ہوئے۔ امید ویاس کی کیفیت طاری تھی۔ میں (مولانا تاج محمودؒ) سخت پریشان تھا۔ بھٹو صاحبؒ جیسے چالاک آدمی سے پالا پڑا تھا۔ کسی وقت بھی وہ جھٹکا دے کر تحریک کو کچلنے کا فیصلہ کر سکتے تھے۔ تمام حالات ہمارے سامنے تھے۔ میں انتہائی پریشانی کے عالم میں مولانا محمد رمضان علویؒ کے گھر گیا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ اگر فیصلہ صحیح نہ ہوا تو میری جان نکل جائے گی۔ ان کے ہاں کروٹیں بدلتے وقت گذرا۔ رات کو راجہ بازار کی جامع مسجد میں جلسہ عام منعقد ہوا۔
	مقررین نے بڑی گرم تقریریں کیں۔ ہجوم آتش فشاں پہاڑ کی شکل اختیار کئے ہوئے تھا۔ اعلان کیاگیا کہ کل اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو راجہ بازار میں شہیدان ختم نبوت کی لاشوں کا انبار ہوگا۔ جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا جلسہ کی تقریروں میں شدت پیدا ہوتی جارہی تھی۔ بھٹو صاحبؒ جلسہ کی ایک ایک منٹ کی کارروائی سے باخبر تھے۔ تمام حالات ان کے سامنے تھے۔ رات بارہ بجے حسب پروگرام بھٹو صاحب کی صدارت میں کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ پنڈی میں جلسہ ہورہا تھا۔ اسلام آباد میں میٹنگ ہورہی تھی۔
	ڈیڑھ بجے کے قریب مولانا مفتی محمودؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، پروفیسر غفور احمدؒ اور چوہدری ظہور الٰہیؒ ڈیڑھ گھنٹہ کے مذاکرات کے بعد جلسہ میں تشریف لائے۔ مولانا مفتی محمودؒ نے سٹیج پر چڑھنے سے قبل مجھے (مولانا تاج محمودؒ) اشارہ سے بلوایا اور فرمایا۔ مبارک ہو۔ کل آپ کی انشاء اﷲ العزیز جیت ہوجائے گی۔ لیکن اس کا ابھی افشأنہ کریں کہ حکومت کا اعتبار نہیں ہے۔ میں سٹیج پر آیا۔ شیخ بنوریؒ کے کان میں کہا کہ افشأ نہ کریں۔ لیکن آپ کو مبارک ہو۔ شیخ بنوریؒ کے منہ سے بے ساختہ زور سے نکلا۔ الحمدﷲ!	     (تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء ج۳ ص۳۲۵تا۳۲۹)
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter