مسجد میں جلسہ عام ہوا۔ حضرت قبلہؒ کنونشن، وشاہی مسجد کے جلسہ عام میں حضرت بنوریؒ، حضرت مفتی محمودؒ، میاں عبدالہادیؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا عبداﷲ درخواستیؒ، خواجہ قمرالدین سیالویؒ، مولانا عبدالقادر روپڑیؒ کے شانہ بشانہ تمام اجلاسوں میں شریک رہے۔ آخری اجلاس راولپنڈی میں منعقد ہوا۔ اس سے قبل ’’بندر انائیکے‘‘ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ میں جناب ذوالفقار علی بھٹوؒ اور چوہدری ظہور الٰہیؒ کا آمنا سامنا ہوا۔ ظہور الٰہیؒ جھانسہ دے کر نکلنا چاہتے تھے۔ بھٹو صاحبؒ نے آواز دے کر کہا کہ چوہدری صاحبؒ کیوں چھپ کر جا رہے ہو؟ ادھر آؤ۔ اتنے میں لاء سیکرٹری افضل چیمہ آگئے۔ تو بھٹو صاحبؒ نے چیمہ صاحب کو کہا کہ آپ ظہور الٰہیؒ کو سمجھائیں۔ یہ میرا مخالف ہوگیا ہے۔ ظہور الٰہیؒ نے کہا کہ نہیں ہمیں آپ سے اصولی اختلاف ہیں۔ ہم اخلاص سے آپ سے اختلاف کرتے ہیں۔ اس سے آگے مولانا تاج محمودؒ کی زبانی سنئے۔ فرماتے ہیں۔ ظہور الٰہیؒ نے کہا کہ: ’’ہم اخلاص اور نیک نیتی سے آپ پر تنقید کرتے ہیں۔ اب ختم نبوت کا مسئلہ آپ کے سامنے ہے۔ اسے حل کیجئے اور قوم کے ہیرو بن جائیے۔ بھٹو صاحبؒ نے کہا کہ اگر میں ۱۴؍جون کو (ملک گیر ہڑتال کے دن) اس مسئلہ کو مان لیتا تو ہیرو بن سکتا تھا۔ لیکن اب بعداز خرابی بسیار مسئلہ ماننے سے ہیرو کیسے بن سکتا ہوں؟ افضل چیمہ نے کہا کہ بھٹو صاحبؒ باقی علماء کو تو مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دینے پر اتنا اصرار نہیں ہے۔ البتہ چوہدری ظہور الٰہی صاحبؒ بڑا اصرار کر رہے ہیں۔ اترارہا ہے اور ضد کر رہا ہے۔ میں نے کہا کہ بھٹو صاحبؒ یہ چیمہ صاحب آپ کے سامنے اپنے نمبر بنارہے ہیں۔ میں ضد نہیں کر رہا۔ علماء کرام کا اپنا موقف ہے وہ میرے تابع نہیں ہیں۔ ایک دینی مؤقف اور شرعی امر ہے۔ علماء کرام کو یوں مطعون کرنا چیمہ صاحب کے لئے مناسب نہیں ہے اور صرف علماء کرام نہیں بلکہ اس وقت تمام اسلامیان پاکستان اس مسئلہ کو حل کرانے کے لئے سراپا تحریک بنے ہوئے ہیں۔
دنیائے اسلام کی نگاہیں اس مسئلہ کے لئے آپ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ دنیائے اسلام کے مسلمان اس مسئلہ کا مثبت حل چاہتے ہیں۔ اسے صرف مولویوں کا مسئلہ کہہ کر چیمہ صاحب آپ کو گمراہ کر رہے ہیں۔ علماء کرام قطعاً اس مسئلہ میں کسی قسم کی معمولی سی لچک پیدا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ آپ اس بارے میں علماء کرام سے خود دریافت کرلیں۔ بلکہ میں ایسے عالم دین کا نام بتاتا ہوں جو آپ کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ آپ ان سے پوچھ لیں کہ مسئلہ ختم نبوت فروعی امرہے یا دین کا بنیادی مسئلہ ہے۔ اس کا تحفظ کرنا مسلمان حکومت کے لئے ضروری ہے یا نہیں؟ بھٹو صاحبؒ نے کہا کون سے عالم دین۔ میں نے کہا کہ مولانا ظفر احمد انصاریؒ آپ ان سے پوچھ لیں اگر وہ ختم نبوت کے مسئلہ کو فروعی مسئلہ سمجھتے ہوں تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ ہم تحریک سے لاتعلق ہو جائیںگے۔ بھٹو صاحبؒ نے چیمہ صاحب کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ وہ مجھے (ظہور الٰہی) ساتھ لے کر مولانا ظفر احمد انصاریؒ سے ملیں اور ان کا مؤقف معلوم کریں۔ چنانچہ اب وقت ہوگیا ہے ۔ چیمہ صاحب میرا انتظار کر رہے ہوںگے۔ ہم دونوں نے مولانا ظفر احمد انصاریؒ سے ملنا ہے۔ مولانا مفتی زین العابدینؒ اور مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ کے چیمہ صاحب اور مولانا ظفر احمد انصاریؒ سے اچھے تعلقات تھے۔ چیمہ صاحب تو ویسے بھی فیصل آباد کے علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ طے ہوا کہ یہ دونوں حضرات بھی آپ کے ساتھ جائیں۔ چوہدری ظہور الٰہیؒ، افضل چیمہ، حکیم عبدالرحیم اشرفؒ، مولانا مفتی زین العابدینؒ اور مولانا ظفر احمد انصاریؒ کی طویل گفتگو ہوئی۔ مولانا ظفر احمد انصاریؒ نے صراحتہً فرمایا کہ ختم نبوت کا مسئلہ دین کا بنیادی مسئلہ ہے۔ اس کو فروعی مسئلہ قرار دینا غلط ہے۔ حقیقت میں خود افضل چیمہ اس مسئلہ میں ضد کر رہے تھے۔ تمام حضرات کی گرفت سے چیمہ صاحب نرم ہوگئے، تو ہاتھ جھٹک کر کہا کہ اگر آپ لوگ ملک کی جڑیں اس طرح کھوکھلی کرنا چاہتے ہیں تو بڑے شوق سے جو چاہے کر جائیے۔ بہرحال مولانا ظفر احمد انصاریؒ کی گفتگو کی رپورٹ بھٹو صاحب کو دی گئی۔‘‘