نے فرمایا کہ اچھا آپ بھی مولانا محمد شریفؒ صاحب کو نائب امیر بنوانے والوں میں شامل تھے؟ میرے تو اوسان خطاء ہوگئے۔ یا اﷲ یہ کیا ہوگیا۔ حضرت قبلہؒ کو مجھ سے پہلے کارروائی کس نے بتادی۔ کون مجھ سے پہلے یہاں پہنچ گیا؟ کارروائی ختم ہونے کے بعد میرے خیال میں راقم پہلا آدمی تھا کہ جو ملتان سے خانقاہ شریف آیا ہو، مجھ سے پہلے کون آیا اور کارروائی کی رپورٹ بھی منفی پیش کی۔ کیس ہی خراب ہوگیا۔
راقم نے کانپتے جسم اور لرزتے ہونٹوں سے عرض کیا کہ حضرتؒ آپ کے نام پر تو کسی نے اختلاف ہی نہیں کیا۔ آپ کے مقابلہ میں کوئی نام ہی نہیں آیا۔ پہلے ہاؤس نے رائے دی کہ مولانا محمد شریف جالندھریؒ نائب امیر ہوں۔ جب حضرت شیخ بنوریؒ نے آپ کا اعلان فرمایا کہ اگر مجھے امیر بنانا ہے تو نائب امیر مولانا خواجہ خان محمدؒ صاحب ہوںگے۔ اس پر کسی نے اختلاف نہیں کیا۔ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا، نہ سوچا گیا اور یہ کہ مولانا محمد شریف جالندھریؒ کا اوّل میں جو نام پیش ہوا، اس میں بھی دوسرے مولانا صوفی اﷲوسایاؒ ہیں وہ ڈیرہ غازیخان کے تھے۔ وہ بولے تھے۔ میں تو لائل پور میں مجلس کا مبلغ ہوں۔ (اور واقعہ بھی یہی تھا کہ مولانا محمد شریف جالندھریؒ والی تجویز کا فقیر گو حامی تھا۔ لیکن ساری عمر پیچھے رہ کر راقم گیم بناتا رہا۔ خود کبھی آگے نہیں آیا۔ اس دن بھی یہی کیا تھا) اس پر حضرت قبلہؒ مسکرائے۔ فرمایا بہت اچھا اور ساتھ ہی فرمایا کہ حضرت الاستاذ حضرت شیخ بنوریؒ کا حکم ہے۔ کیسے ٹال سکتا ہوں؟ یہ فرماکر تصویب وقبولیت کا بھی اظہار فرمایا۔ جوابی خط بھی تحریر فرمایا۔ جس کا قریباً یہی مفہوم تھا۔ کھانا کھایا، ظہر کے بعد کی مجلس میں حاضری رہی، رات کی گاڑی سے ملتان آگیا۔ دوچار روز چھوڑ کر پھر حضرت مولانا محمد شریف جالندھریؒ خانقاہ سراجیہ تشریف لے گئے تو حضرت قبلہؒ نے فرمایا کہ میں تو جمعیت علماء اسلام سے وابستہ ہوں۔ آپ نے مجھے نائب امیر بنادیا۔ اس پر مولانا محمد شریف جالندھریؒ نے عرض کیا کہ یہ تو آپ جانیں اور آپ کے استاذ (حضرت شیخ بنوریؒ) اس پر حضرت قبلہؒ مسکرادئیے۔ اس ملاقات میں مولانا محمد شریف جالندھریؒ نے عرض کیا کہ حضرت مہینہ میں ایک دن دفتر مرکزیہ کے لئے مختص فرمادیں تاکہ مہینہ بھر کی رپورٹ پیش کی جاسکے اور اگلے مہینہ کے پروگراموں کی بابت مشورہ ہو جایا کرے۔ چنانچہ سالہاسال اس پر عمل ہوتا رہا۔
تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء
۹؍اپریل ۱۹۷۴ء کو مجلس تحفظ ختم نبوت کی حضرت بنوریؒ نے امارت اور حضرت قبلہؒ نے نائب امارت سنبھالی۔ ایک ماہ بیس دن بعد ۲۹؍مئی کو اسٹیشن چناب نگر (ربوہ) پر ملتان نشتر میڈیکل کے طلباء کی ٹرین پر قادیانی اوباشوں نے مرزاطاہر کی قیادت میں حملہ کر دیا۔ ٹرین کے فیصل آباد پہنچنے سے قبل مولانا تاج محمودؒ کو جونہی اطلاع ہوئی شہر فیصل آباد میں اعلان کرادیا۔ چناب ایکسپریس کے پہنچنے سے قبل اسٹیشن پر پورا فیصل آباد امڈ آیا۔ گوجرہ، ٹوبہ، شورکوٹ، عبدالحکیم، خانیوال، ملتان، جہاں جہاں ٹرین کے سٹاپ تھے وہاں کے مسلمانوں کو مولانا تاج محمودؒ، مولانا محمد شریف جالندھریؒ نے اطلاعیں کیں۔ ہر جگہ احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ ۲۹؍مئی ۱۹۷۴ء کو حضرت بنوریؒ سرحد کے سفر پر تھے۔ سردار میر عالم لغاری کو کراچی فون کر کے حضرت بنوریؒ کو فوری راولپنڈی پہنچنے کا عرض کیاگیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ راولپنڈی سے سوات حضرت بنوریؒ کو اطلاع دہی کے لئے مولانا قاری زرین احمد مدرس جامعہ فرقانیہ کی ڈیوٹی لگی۔ وہ بھی ہمارے حضرت قبلہؒ کے مرید ہیں۔ حضرت بنوریؒ اسلام آباد تشریف لائے۔ حضرت مفتی محمودؒ اسمبلی کے اجلاس کے سلسلہ میں اسلام آباد تھے۔ ان سے مشورہ کے بعد ۳؍جون کو راولپنڈی اجلاس طلب کیاگیا۔ اس اجلاس میں شرکت کے لئے مولانا تاج محمودؒ، مولانا مفتی زین العابدینؒ، مولانا حکیم عبدالرحیم اشرفؒ کو لالہ موسیٰ گرفتار کر لیا گیا۔ تاہم اجلاس ہوا۔ اس میں بھی حضرت قبلہؒ تشریف