Deobandi Books

تذکرہ خواجۂ خواجگان ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

32 - 251
کریں تو جس طرح حضرت امیر شریعتؒ کی اطاعت کر کے قادیانیوں کو نتھ ڈالی۔ اس طرح تیار ہیں بلکہ بڑھ کر اطاعت کا وہ نمونہ پیش کریںگے کہ اولاد بھی اپنے والدین کی وہ اطاعت نہیں کر سکتی۔ جو ہم آپ کی کریںگے، اور اگر امارت پر آپ آمادہ نہیں تو مولانا محمد شریف جالندھریؒ سے چابیاں لے کر جذبات میں حضرت بنوریؒ کی طرف بڑھادیں کہ یہ چابیاں ہیں۔ اس دفتر کو بند کر دیں۔ ہم بھی گھروں کو جاتے ہیں۔‘‘ اس پر پھر وہی آہ وبکا کی کیفیت، حضرت بنوریؒ نے صرف اتنا فرمایا بہت اچھا۔ پورا اجلاس خیر مقدمی کلمات سے گونج اٹھا۔ حضرت بنوریؒ کچھ فرمانا چاہتے تھے کہ مولانا حسین علیؒ وار برٹن کے کھڑے ہوئے اور نائب امارت کے لئے مولانا محمد شریف جالندھریؒ کا نام پیش کر دیا۔ اس کا بھی ایک پس منظر ہے۔ وہ یہ کہ مجلس کے دستور کے اعتبار سے مرکزی ناظم اعلیٰ کو امیر مرکزیہ نامزد کرتے ہیں۔ اس وقت ناظم اعلیٰ مولانا عبدالرحم اشعرؒ تھے۔ جب کہ تمام مبلغین کی اور اراکین عمومی اس کام کے لئے مولانا محمد شریف جالندھریؒ کو موزؤں سمجھتے تھے۔ مگر رکاوٹ یہ کہ ناظم اعلیٰ کا اختیار وہ امیر مرکزیہ کے پاس تھا۔ البتہ امیر مرکزیہ اور نائب امیر کا چناؤ وہ مجلس عمومی نے کرنا تھا۔ مولانا منظور احمد شاہ حجازیؒ، مولانا خدا بخشؒ، مولانا قاضی اﷲ یارؒ، خود راقم اور اکثر دوست تیاری کے ساتھ مجلس عمومی کو قائل کر کے آئے تھے کہ مجلس عمومی مولانا محمد شریف جالندھریؒ کو نائب امیر بنادے۔ ناظم اعلیٰ نہ سہی نائب امیر تو وہ ہو جائیںگے۔ مولانا حسین علیؒ واربرٹن اچھے خطیب، خوب جہیر الصوت، ایک پاؤں سے معذور جس کے باعث ڈنڈا ہاتھ میں، پگڑی پہنے، چشمہ لگائے، انہوں نے حضرت شیخ بنوریؒ کے کچھ فرمانے سے قبل ڈنڈا اٹھایا۔ اس کے سہارے کھڑے ہوئے۔ خوب تیزی اور بلند آواز سے نائب امیر کے لئے مولانا محمد شریف جالندھریؒ کا جوں ہی نام پیش کیا، مقابلہ میں کسی اور کا نام آنے کا موقعہ ہی نہ آنے دیا کہ اتنے میں ہال میں اکثر رفقاء کے ہاتھ مولانا محمد شریف جالندھریؒ کی نائب امارت کے لئے بلند ہوگئے۔ کہاں حضرت بنوریؒ امیر بننے کے لئے خوشی سے آمادہ نہیں، اس پر سب نے مولانا محمد شریف بہاولپوریؒ کی قیادت میں رو رو کر آپ کو آمادہ کرلیا۔ اب حضرت بنوریؒ کچھ فرمانا چاہتے ہیں کہ مولانا محمد شریف جالندھریؒ کی نائب امارت کنفرم ہونے کو ہے۔
	حضرت بنوریؒ نے ہال کے اس منظر کو دیکھا۔ اکثر وبیشتر عمومی کے ارکان، علمائ، مشائخ یا حضرت امیرشریعتؒ، حضرت جالندھریؒ کے تربیت یافتہ تھے۔ جیسے پہلے عرض کیا ہے کہ حضرت بنوریؒ کا ارادہ تھا کہ حضرت قبلہ مولانا خواجہ خان محمدؒ صاحب کو امیر بنائیںگے۔ اجلاس نے حضرت بنوریؒ کو امیر بنالیا۔ اب نائب امیر کے لئے مولانا محمد شریف جالندھریؒ کو لایا جارہا ہے تو حضرت بنوریؒ نے ماحول کو دیکھا اور مولانا حسین علیؒ سے فرمایا۔ مولوی صاحب! بیٹھ جائیے۔ حضرت بنوریؒ کے اس جملہ پر پوری عمومی نے حضرت کے احترام میں سر جھکالئے۔ تو حضرت بنوریؒ نے فرمایا دیکھئے کہ اگر میں امیر ہوں تو نائب امیر مولانا خواجہ خان محمدؒ صاحب ہوںگے اور بس۔ اس پر کوئی بات سننے کے لئے آمادہ نہیں اور آپ میں سے کوئی کچھ نہ کہے۔ اب عمومی کے اکثر ارکان اور غالباً تمام مبلغین جو مولانا محمد شریف جالندھریؒ کو آگے لانا چاہتے تھے۔ لگے بغلیں جھانکنے۔ خلاف توقع سارا منصوبہ ہی ناکام ہوگیا۔ ایک تو حضرت الامیر اور وہ بھی حضرت بنوریؒ، ان کا حکم، دوسرا یہ کہ حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب کے نام کے سامنے آتے ہی پورے اجتماع میں سے ایک شخص بھی اس سے انکار کا سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ لیکن حضرت بنوریؒ ایسے خدارسیدہ، معاملہ فہم رہنمائ، اگلے ہی جملہ میں سب کے دل جوڑ دئیے۔ فرمایا کہ نائب امیر تو مولانا خواجہ خان محمدؒ صاحب ہی ہوںگے۔ ہاں آپ دوستوں کی اکثریت چاہتی ہے کہ مولانا محمد شریف جالندھریؒ اہم ہیں۔ تو میں انہیں ناظم اعلیٰ نامزد کرتا ہوں۔ اب تو پورا اجتماع سبحان اﷲ! ماشاء اﷲ! ٹھیک ہے۔ باالکل منظور ہے۔ منظور ہے۔ کی صداؤں سے گونج اٹھا۔ لیجئے! حضرت شیخ بنوریؒ نے جو امیر بنتے ہی پہلا فیصلہ کیا ’’اگر میں امیر تو نائب امیر بھرحال مولانا خان محمدؒ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter