اس موقعہ پر راقم اپنا تأثر اس طرح بیان کر سکتا ہے کہ غالباً حضرت بنوریؒ اپنی مصروفیات اور مجلس کی امارت کی اہمیت دونوں میں تطبیق اس طرح فرمانا چاہتے ہوں گے کہ ایسی معتمد اور جامع شخصیت جو مجلس کی امارت کے بوجھ کو اٹھا سکے۔ وہ ان کو امیر بناکر اور خود اپنی رہنمائی وتعاون کے ساتھ پیچھے رہ کر ان دونوں کاموں کی تقسیم کار کرنا چاہتے تھے۔ تاکہ جامعہ اور مجلس کے کام، دونوں کما حقہ چلتے رہیں۔ اس لئے آپ کی نظر انتخاب حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ صاحب پر پڑی۔ چنانچہ آپ سے بطور خاص اجلاس میں ملتان تشریف لانے گا پختہ وعدہ لیاگیا۔ قرائن بتاتے ہیں کہ اس کے لئے انہوں نے مفکراسلام مولانا مفتی محمودؒ کو بھی اعتماد میں لیا۔ یہ دونوں بزرگ اس زمانہ میں ہر اہم کام میں ایک دوسرے کے مشورہ کو ضروری سمجھتے تھے۔ لیکن جب عمومی کا اجلاس ہوا تو صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت قبلہؒ نے جس ٹرین کو کندیاں سے پکڑنا تھا۔ اس سے رہ گئے۔ جو صبح ملتان پہنچتی ہے۔ دوسری ٹرین جو صبح کندیاں سے چلتی ہے اس نے ملتان اجلاس کے اختتام پر پہنچنا تھا۔ اس لئے آپ کندیاں سے واپس خانقاہ آگئے اور اجلاس کے وقت پر نہ پہنچ سکنے کے باعث سفر ملتوی کر دیا۔ مولانا محمد عبداﷲ صاحب بھکر والوں کو بھی آپ نے فرمادیا تھا کہ وہ رات کی ٹرین سے ملتان کے لئے سفر کریں۔
حضرت قبلہؒ خود تو رہ گئے۔ مولانا محمد عبداﷲ بروقت پہنچ گئے۔ حضرت شیخ بنوریؒ بھی صبح کے جہاز پر کراچی سے ملتان تشریف فرماہوگئے۔ اجلاس شروع ہونے کا وقت ہوگیا۔ اب حضرت قبلہؒ موجود نہیں تو مولانا عبداﷲ نے عرض کیا کہ پروگرام تو پختہ تھا۔ ممکن ہے کہ ٹرین چھوٹ گئی ہو تو اب دوسری ٹرین سے دوپہر تک تشریف لائیں۔ حضرت بنوریؒ نے فرمادیا کہ صبح دس بجے کی بجائے اجلاس مؤخر کر دیا جائے۔ اس زمانہ میں ڈائریکٹ ڈائلنگ کا نظم نہ تھا۔ ہوتا بھی تو خانقاہ سراجیہ میں فون کی سہولت موجود نہ تھی۔ اس زمانہ میں چشمہ کالونی کے ایک ارادت مند کے ذریعہ رابطہ ہوتا تھا۔ کال بک کرائی جاتی تو بھی گھنٹوں باری کی انتظار کرنا پڑتی تھی۔ اس تگ ودو میں ظہر کے بعد اجلاس شروع ہوا۔ جب دوسری ٹرین آگئی اس پر حضرت قبلہؒ تشریف نہ لائے۔ اب حضرت قبلہؒ بھی تشریف نہیں لاسکے۔ حضرت شیخ بنوریؒ آپ سے مشورہ بھی نہیں کرسکے۔ ادھر اجلاس حضرت بنوریؒ کی صدارت میں شروع۔ تلاوت کے بعد سابقہ اجلاس عمومی کی کارروائی پڑھی گئی۔ اس کی توثیق ہوتے ہی حضرت بنوریؒ کا نام پیش ہوا۔ تمام حاضرین نے یک زبان ہوکر نہ صرف تائید کی بلکہ ہاتھ بھی بلند کر دئیے۔ حضرت بنوریؒ کچھ فرمانا چاہتے تھے کہ حضرت امیرشریعتؒ کے ساتھی، مفتی کفایت اﷲؒ کے شاگرد، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے بانی رکن اور سرائیکی زبان کے نامور خطیب مولانا محمد شریف بہاولپوریؒ کھڑے ہوگئے۔ ان کو دیکھ کر حضرت بنوریؒ نے گفتگو کا آغاز روک دیا۔ حضرت بہاولپوریؒ نے کہا کہ: ’’حضرت (حضرت بنوریؒ) ختم نبوت کا کام آپ کے استاذ حضرت انور شاہ کشمیریؒ نے حضرت امیرشریعتؒ کے ذمہ لگایا تھا۔ ہم سب نے اﷲتعالیٰ کا نام لے کر حضرت امیرشریعتؒ کے ساتھ امکانی حد تک جوبن پڑا، قادیانیت کو لگام دی۔ حضرت امیرشریعتؒ، ان کے رفقاء حضرت قاضیؒ صاحب، حضرت جالندھریؒ، حضرت مولانا لال حسین اخترؒ، یکے بعد دیگرے ہمیں یتیم کر گئے۔ ان کی جدائی سے خمیدہ کمر، شکستہ دل اس ٹیم کی آپ امارت قبول فرمائیں۔‘‘
اس پر پورے اجتماع میں آہوں اور سسکیوں کا ایسا ماحول بنا کہ شام غریباں پر ان کے خطیب کیا بناتے ہوںگے۔ خود حضرت بنوریؒ، مولانا محمد حیاتؒ، مولانا تاج محمودؒ، مولانا محمد شریف جالندھریؒ اور دیگر حضرات نے بھی رورو کر اپنی داڑھیوں کو آنسوؤں سے ترکرلیا۔ اس پر مولانا محمد شریف بہاولپوریؒ نے پھر بات کا آغاز کیا کہ: ’’حضرت (حضرت بنوریؒ) آپ امارت قبول