عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے دوسرے امیر خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ کے انتقال کے بعد حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ بہت سے اکابر کو عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی امارت کے لئے آمادہ کرتے رہے۔ راقم نے خود حضرت قبلہؒ سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت جالندھریؒ میرے پاس بھی تشریف لائے تھے اور مجھے بھی امارت قبول کرنے کے لئے فرمایا۔ لیکن میں نے کہا کہ آپ کے ہوتے ہوئے کسی اور کی امارت کا سوچنا بھی ٹھیک نہیں۔ آپ (حضرت جالندھریؒ) سے بڑھ کر اس کام کو اور کون احسن انداز میں چلاسکتا ہے؟ اور پھر حضرت قبلہؒ نے مسکرا کر فرمایا کہ یہ جو مجلس کی امارت میرے سپرد ہوئی حضرت جالندھریؒ کی اس زمانہ کی پیشکش کو اﷲتعالیٰ نے یوں پورا فرما دیا۔ اﷲ رب العزت کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں۔
غرض حضرت قاضی صاحبؒ کے بعد حضرت جالندھریؒ ان کے بعد مولانا لال حسین اخترؒ، ان کے بعد عارضی طور پرمولانا محمد حیاتؒ فاتح قادیان (چھ ماہ کے لئے) امارت کے عہدہ پر فائز رہے۔ ۹؍اپریل ۱۹۷۴ء میں مجلس کا سہ سالہ انتخاب ہونا تھا۔ حضرت مولانا محمد شریف جالندھریؒ، حضرت مولانا تاج محمودؒ اور ملک کے دیگر بہت سے مجلس کے بہی خواہ بزرگ اس کوشش میں تھے کہ شیخ الاسلام مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کو اس منصب کے لئے آمادہ کیا جائے۔ اس کی کئی وجوہات تھیں۔ مثلاً:
۱…
قادیانیت ان دنوں منہ گھوڑے کی طرح دولتیاں مار رہی تھی۔ مسلمان خواص وعوام میں بھی ردعمل عروج پر تھا۔
۲…
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی امارت کے لئے بین الاقوامی شہرت کی حامل شخصیت کی ضرورت تھی۔ اس لئے کہ بیرون ملک بھی قادیانی خرمستیاں زوروں پر تھیں۔
۳…
اندرون ملک بھی کام کے لئے ایسی جامع شخصیت کی ضرورت تھی۔ جن کے احترام کا حلقہ ایسا مسلّم ہو کہ سب اس شخصیت کی قیادت میں جمع ہوکر قادیانیت کا تعاقب کر سکیں۔
۴…
حضرت شیخ بنوریؒ ان تمام خصوصیات کے حامل تھے۔ علاوہ ازیں آپ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کی نسبت شاگردی کے نہ صرف حامل تھے بلکہ پاکستان میں بلاشبہ وہ حضرت سید کشمیریؒ کے علمی جانشین کے طورپر جانے پہچانے اور مانے جاتے تھے۔
۵…
اور درحقیقت یہ کہ قدرت کی طرف سے قادیانیوں کی آئینی رسوائی کا وقت بھی آن پہنچا تھا۔ اس جدوجہد کی قیادت کے لئے قدرت کا فیصلہ بھی حضرت بنوریؒ ہی کے لئے تھا۔