کانفرنس کے شروع ہونے سے ایک دن قبل حضرت قبلہؒ چناب نگر تشریف لائے۔ یاد رہے کہ حضرت قبلہؒ اپنی صحت کے زمانہ میں چناب نگر ختم نبوت کانفرنس کے شروع ہونے سے ایک دن قبل تشریف لاتے۔ کانفرنس کے اختتام کے بعد مزید بھی ایک رات قیام فرماتے۔ یہ تقریباً آپ کا معمول تھا۔ اب خانقاہ سراجیہ سے حضرت بیرشریفؒ والوں کو پتہ چلا کہ حضرت قبلہؒ چناب نگر تشریف لے گئے ہیں تو خانقاہ شریف سے چناب نگر صبح آٹھ، نو بجے تشریف لائے۔ ہم خدام کی عید ہوگئی۔ گھنٹہ بھر حضرت قبلہؒ سے ملاقات رہی اور اجازت چاہی، حضرت قبلہؒ نے اجازت دے دی۔ حضرت بیرشریفؒ والوں کو جاتا دیکھ کر ہم خدام دوڑے کہ حضرت کانفرنس چند ساعتوں میں شروع ہونے والی ہے۔ آپ افتتاحی بیان فرمادیں۔ حضرت بیرشریفؒ والے مسکرائے اور فرمایا کہ کانفرنس میں شرکت ہوگئی۔ گھر سے صرف حضرت قبلہؒ کی ملاقات کے لئے چلا تھا۔ اس سفر میں حضرت قبلہؒ کی ملاقات کے علاوہ اور کسی مصروفیت کی آمیزش پر دل نہیں مانتا۔ ہم دل مسوس کر رہ گئے۔ حضرت قبلہؒ بھی مسکرادئیے اور حضرت بیرشریفؒ والے چل دئیے۔ سچ ہے کہ بڑوں کی باتیں بڑے ہی جانتے ہیں۔ ہم چھوٹوں کو دخل دینا۔ دخل در معقولات نہیں۔ بلکہ سوئے ادبی کے زمرہ میں آتا ہے۔
اکابر سے حضرت قبلہؒ کے تعلقات
یہاں پر ایک اور بات بھی سن لیجئے کہ برطانیہ بری میں دارالعلوم کے بانی اور مہتمم حضرت مولانا یوسف متالا بہت بڑے شیخ وقت اور برطانیہ کے لئے آیۃ من آیات اﷲ ہیں۔ حضرت قبلہؒ جب بھی برطانیہ کے سفر پر جاتے ان کی ملاقات کے لئے تشریف لے جاتے۔ وہ بھی احترام کا حق ادا کردیتے۔ گھنٹوں مجلس میں اﷲتعالیٰ کے فضل ورحمت کی بارش کا سا سماں بندھ جاتا۔ گذشتہ کئی سالوں سے کمزوری کے باعث حضرت قبلہؒ کا برطانیہ کاسفر نہیں ہوا۔ کانفرنس کے بعد مولانا حافظ محمد نگین، مولانا محمد ابراہیم خطیب بریڈ فورڈ، اور فقیر راقم دارلعلوم بری حضرت متالا کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے۔ آپ نے شفقتوں کی انتہاء کر دی۔ جب اجازت چاہی تو دروازہ میں ہمیں کھڑا کر کے خود بالا خانہ پر تشریف لے گئے۔ کچھ دیر کے بعد لفافہ میں چھ عدد غالباً اعلیٰ عطرکی شیشیاں لائے اور راقم سے فرمایا کہ یہ میری طرف سے حضرت قبلہؒ کو ہدیہ پیش کر کے حضرت قبلہؒ کی ایک مستعملہ پگڑی کی درخواست کرنا۔ پھر بہت دیر تک حضرت قبلہؒ کے لئے بڑے وقیع جذبات کا اظہار فرماتے رہے۔ وہ حضرت شیخ الحدیث کے خلیفہ مجاز اور شیخ طریقت، وشیخ زمانہ ہیں۔ لیکن حضرت قبلہؒ کی مستعملہ پگڑی کے لئے خواہش کا اظہار خوب حضرت قبلہؒ کی رفیع شان پر دلالت کرنے والی بات ہے۔ وہی جو پہلے عرض کیا کہ بڑوں کی باتیں بڑے ہی جانتے ہیں۔
خانقاہ قادریہ راشدیہ دین پور شریف کے مسند نشین ثانی حضرت مولانا میاں عبدالہادیؒ صاحب بہت کامل بزرگ اور جامع شریعت وطریقت مسلمہ رہنما تھے۔ آپ یومیہ کئی پارے تلاوت بلاناغہ کرتے تھے۔ اس میں کسی سے میل ملاقات بات چیت نہ کرتے تھے۔ فجر کے بعد اور ظہر تا عصر تو تلاوت کا معمول تھا ہی۔ اس دوران سب کومعلوم تھا کہ ملاقات ناممکن ہے۔ حضرت قبلہؒ ایک سفر کے دوران میں دین پور تشریف لے گئے۔ وقت ایسا تھا کہ حسب معمول حضرت میاں عبدالہادیؒ تلاوت میں مصروف تھے۔ حضرت قبلہؒ نے بھی سفر کرنا تھا۔ کسی خادم خاص نے جاکر حضرت میاں صاحبؒ سے حضرت قبلہؒ کی تشریف آوری کا بتایا۔ آپ نے تلاوت کو روکا۔ تشریف لائے، معانقہ ومصافحہ ہوا۔ خیر خیریت پوچھی۔ بیٹھے رہے۔ خانقاہ دین پور کے تمام خدام ششدر کہ یہ سب کچھ خلاف معمول کیسے ہوگیا۔ جب حضرت قبلہؒ نے جانے کے لئے اجازت طلب کی تو حضرت میاں صاحبؒ نے بہت ہی محبت سے فرمایا کہ حضرت قیامت میں بھی خیال رکھنا۔ آپ نے سر جھکا کر جواباً ارشاد فرمایا۔ ’’اﷲ تعالیٰ بھلی فرمائیں گے‘‘ دونوں بزرگ باہمی احترام اور محبت سے ایسے ایک دوسرے سے رخصت ہوئے کہ موجود حضرات پر وجد آفرین کیفیت کی بہار چھا گئی۔