Deobandi Books

تذکرہ خواجۂ خواجگان ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

26 - 251
	مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ کے وصال کے بعد ایم،آر،ڈی کے مسئلہ پر پھر جمعیت دو رائے کا شکار ہوئی۔ ایک دھڑا درخواستی گروپ اور دوسرا دھڑا فضل الرحمن گروپ کہلایا تو ہمارے حضرت خواجہؒ صاحب نے اپنا تمام تر وزن مولانا فضل الرحمن کے جمعیت والے حصہ میں ڈال دیا۔ اس وقت حضرت درخواستیؒ کا پورے ملک باالخصوص پنجاب میں طوطی بولتا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ پنجاب کے مساجد ومدارس کی اکثریت حضرت درخواستی والے حصہ جمعیت کے ساتھ تھی۔ واحد ہمارے حضرت خواجہؒ صاحب کی ذات گرامی ہے کہ آپ کے باعث پنجاب کے مدارس ومساجد کا معتمد بہ حصہ مولانا فضل الرحمن صاحب کے ساتھ رہا۔ آپ کا فیصلہ کتنا صحیح تھا کہ اس وقت جمعیت نام ہی اس حصہ کا ہے۔ جس کے ساتھ آپ ہمیشہ رہے۔
	مجلس تحفظ ختم نبوت سے وابستگی کی تفصیلات تو آگے آئیںگی۔ جمعیت اور مجلس کے حوالہ سے ایک بات یہاں جوڑ کھاتی ہے جسے ذکر کئے بغیر چارہ نہیں کہ ایم۔آر،ڈی کے مسئلہ پر مولانا فضل الرحمن، درخواستی گروپ منقسم ہوئے تو مولانا فضل الرحمن والے حصہ کے امیر مرکزیہ کا مسئلہ درپیش تھا۔ آپ نے اس حصہ کے سرکردہ حضرات کے سامنے رائے رکھی کہ مولانا سراج احمد دین پوری کو امیر بنایا جائے۔ چنانچہ اعلان ہوگیا۔ مولانا محمد لقمانؒ علی پوری اور جمعیت کے دوسرے رفقاء کا وفد گیا اور آپ کو آمادہ کر لیا گیا۔ جمعیت علماء اسلام جمہوری ادارہ ہے۔ اگلے الیکشن میں حضرت مولانا عبدالکریمؒ بیرشریف والے امیر منتخب ہوئے تو ہمارے حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب نے خانقاہ سراجیہ سے جاکر دین پور شریف مولانا سراج احمد دین پوری مدظلہ کو پوری صورتحال پیش فرمائی اور ان کو آمادہ کیا۔ بعد میں حضرت میاں سراج احمد صاحب نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ (آگے تفصیل آئے گی) سردست یہاں پر میاں سراج احمد دین پوری کے حوالہ سے اتنا عرض ہے کہ پیپلزپارٹی کا ان دنوں جنرل ضیاء الحق سے خوب تناؤ تھا۔ مولانا محمد لقمانؒ علی پوری کے گاؤں بستی رنوجہ جلسہ تھا۔ ہمارے حضرت خواجہؒ صاحب کی صدارت تھی۔ میاں سراج احمد دین پوری نے بیان کے دوران جنرل ضیاء الحق پر تنقید کرتے ہوئے ایک جملہ حضرت خواجہؒ صاحب کے متعلق کہہ دیا۔ جو آپ کی شان سے فروتر تھا۔ میاں سراج احمد کو اگلے لمحہ احساس ہوا کہ مجھ سے یہ سہو ہوگیا ہے۔ اسی وقت کرسی سے اٹھ کر حضرت خواجہؒ صاحب کے پاؤں پر ہاتھ رکھ دئیے اور پبلک کے سامنے ہاتھ باندھ کر معافی کے خواست گار ہوئے۔ حضرت خواجہؒ صاحب اٹھے۔ میاں صاحب کو سینے سے لگایا اور مسکرا دئیے۔
	اس واقعہ سے میاں سراج احمد دین پوری کی بے نفسی کے اظہار کے ساتھ ساتھ حضرت خواجہؒ صاحب کے عالی حوصلہ پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ بجائے میاں صاحب پر اظہار ناراضگی کے، فوراً گلے سے لگالیا۔ سچ ہے کہ ان اکابر کی شان بہت ہی نرالی ہے۔ ترتیب تو یاد نہیں۔ مولانا حامد میاںؒ بھی جمعیت علماء اسلام کے امیر رہے۔ ان کے انتقال کے بعد ایک مرحلہ آیا کہ جمعیت علماء اسلام کی امارت اور اتنی بڑی اہم ذمہ داری کے لئے جمعیت کے تمام حضرات کی رائے ہوئی کہ حضرت خواجہؒ صاحب کو امیر بنایا جائے۔ مولانا محمد خان شیرانی نے دوسرے رفقاء کے ساتھ سفر کیا اور خانقاہ شریف حاضر ہوکر جمعیت کی امارت کے لئے آپ سے استدعا کی۔ آپ نے عذر فرمایا کہ خانقاہ شریف اور مجلس تحفظ ختم نبوت کی امارت کی ذمہ داری کے علاوہ مزید بوجھ کا میں متحمل نہیں۔ انہوں نے اصرار کیا تو آپ نے صاف صاف انکار فرمادیا۔ مولانا شیرانی مصر رہے اور پھر فرمایا کہ ہم آپ کے انکار کے باوجود منتخب کر کے اعلان کردیںگے۔
	اس پر حضرت نے فرمایا کہ جمعیت مجھے دل وجان سے عزیز ہے۔ اپنی جماعت ہے۔ لیکن امارت کا اعلان کیا تو میں تردید کردوںگا۔ وہ مایوس ہوگئے۔ قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن، حضرت مولانا عبدالکریمؒ بیرشریف کا والا نامہ لے کر خود تشریف لائے۔ آپ نے والا نامہ پڑھا اور 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter