وقفے وقفے سے لاہور تشریف لے جاتے اور کئی کئی دن وہاں قیام فرماتے اور کام کرنے والے حضرات کو ہدایات اور مشوروں سے سرفراز فرماتے تھے۔
۴… اپنے ضلع (میانوالی) میں بھی حضرتؒ کی سرپرستی، دعائیں اور توجہات ہمارے لئے بہت بڑا سرمایہ تھیں۔ آپ کے حکم سے حضرت مولانا خان محمدؒ صاحب نے علاقے میں بہت کام کیا تھا۔ اس زمانے میں سڑکیں نہیں تھیں۔ ایک بستی سے دوسری بستی میں پہنچنا بھی مسئلہ ہوتا تھا۔ حضرت مولانا خان محمدؒ صاحب نے پورے علاقے میں دورے کئے۔ دیہات کے علماء سے ملے۔ انہیں تحریک کا ہمنوأ بنایا۔ دوردراز کی بستیوں اور فوجی چکوک میں بھی تشریف لے گئے۔ جہاں لوگ نئے آباد ہورہے تھے اور حضرت مولاناؒ کی شخصیت اور خانقاہ شریف کے مقام سے پوری طرح واقف نہ تھے۔ آپ نے تحریک کے لئے رضاکار بھرتی کئے اور ان کی فہرستیں ہمیں میانوالی بھیجیں۔
۵… اپنے چھوٹے بھائی ملک محمد افضل صاحب کو رضاکاروں کے ساتھ گرفتاری دینے کے لئے میانوالی بھیجا اور انہوں نے ۱۳؍مارچ ۱۹۵۳ء کو جلوس کے ساتھ گرفتاری پیش کی۔
۶… مارچ کے آخر میں جب ضلعی رہنماء گرفتار ہوگئے تو آپ نے میانوالی میں تحریک کا مرکز سنبھالا۔ مارچ کے پہلے عشرے میں آپ (مولانا خواجہ خان محمدؒ صاحب) نے ایک دورے کے بعد جو رضاکاروں کی فہرستیں بھیجیں میں ایک فہرست کے نیچے میرے (مولانا محمد عبداﷲ بھکر کے) نام جو تحریر لکھی وہ چند سال پہلے پرانے کاغذات میں سامنے آئی اور میں نے اسے محفوظ کر لیا۔ یہ مختصر سی تحریر مبارک دنوں میں مبارک ہاتھوں کی لکھی ہوئی ہے جو ہمارے لئے اچھی اور مبارک یاد گار ہے۔ وہ تحریر حسب ذیل ہے۔
’’موضع ڈنگ کے رضاکاروں کی مزید فہرست آج صبح کی گاڑی سے پہنچی تھی اور مولانا غلام یٰسین صاحب قریشی نے خود وہ فہرست ساتھ لانی تھی۔ لیکن وہ کسی شدید عارضہ کی وجہ سے آج نہیں پہنچ سکے۔ دو تین روز میں فہرست پہنچ جاوے گی۔ انشاء اﷲتعالیٰ! موضع علووالی میں بھی کام شروع کر دیا گیا ہے۔ وہاں کثیر تعداد میں رضاکار بھرتی ہونے کی قوی امید ہے۔ موضع علووالی کی جملہ کارروائی بھی دو تین روز میں صدر دفتر پر پہنچ جاوے گی۔ موضع ساجری اور اس کے مضافات کے فوجی چکوں میں بھی مجلس عمل کے مطالبات اور پروگرام کی اشاعت کا کام شروع کر دیا ہے۔ پہلے تحریک کی وضاحت اور اس کی دینی ودنیاوی اہمیت لوگوں کے ذہن نشین کرانی لازمی ہے اور بعدازاں اس میں حصہ لینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ فنڈ کی فراہمی کی طرف ابھی تک کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ کیونکہ اگر دیہات میں اس کو بھی ساتھ اپنایا جاوے تو لوگوں کا حصہ لینا ناممکن ہوجاتا ہے اور پھر اس قحط وگرانی میں بہت ہی مشکل ہے۔ ’’گرجاں طلبی میدھم گرزر طلبی سخن درین است‘‘ والا معاملہ ہے اور اس وقت تو بے چارے زمینداروں کے پاس کوئی چیز ہی نہیں۔ تاہم پھر بھی بعض لوگوں سے نجی طور پر فنڈ فراہم کرنے کا ارادہ ہے۔ مولیٰ پاک کامیابی نصیب فرماوے۔‘‘ العارض خان محمد عفی اﷲ عنہ از خانقاہ پاک سراجیہ مجددیہ کندیاں ضلع میانوالی!
(تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء ص۴۴۰تا۴۴۲)
اس طویل اقتباس میں نمبرات لگادئیے ہیں۔ جس سے یہ امور واضح ہوتے ہیں کہ:
۱… حضرت ثانیؒ نے تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء کے باعث حج کا سفر ملتوی کیا۔