Deobandi Books

تذکرہ خواجۂ خواجگان ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

22 - 251
چلی۔ خانقاہ سراجیہ کی روایات کو زندہ رکھتے ہوئے حضرت ثانیؒ نے اس تحریک کا بھرپور ساتھ دیا۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے ’’تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ئ‘‘ نام سے کتاب شائع ہوئی۔ اس میں مولانا محمد عبداﷲ بھکروالوں کی تحریر کردہ میانوالی ضلع کی رپورٹ بھی شائع ہوئی۔ اس میں یہ حصہ بطور خاص قابل توجہ ہے۔
	’’حضرت مولانا محمد عبداﷲ صاحبؒ (حضرت ثانیؒ) اس دور کے اکابر اولیاء میں تھے۔ ان کے مقام کو وہی لوگ جان سکتے ہیں جن کو اﷲتعالیٰ نے باطن کی آنکھیں عطاء فرمائیں۔ میں نے اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوری قدس سرہ العزیز سے حضرت مولانا کی تعریف سنی تھی اور حضرت کے یہ الفاظ اب تک یاد ہیں کہ: ’’وہ اﷲ کے بندے ہیں۔‘‘ حضرت امیر شریعتؒ کو ایک مجلس میں دیکھا۔ حضرت مولانا جھوم جھوم کر تذکرہ فرمارہے تھے۔‘‘
	۱…	حضرت مولانا محمد عبداﷲ صاحبؒ خانقاہ کے مسند نشین اور ہزاروں اہل دل اور اصحاب درد کے شیخ اور مربی تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ ملکی اور عالمی حالات پرنظر رکھتے تھے۔ تحریک ختم نبوت کے ساتھ انہیں قلبی لگاؤ تھا۔ ان کی فکر مندی اور دلچسپی دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ اس معاملے میں کوئی خاص ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں۔ ۱۹۵۲ء بمطابق ۱۳۷۱ھ میں حج کے لئے تشریف لے جارہے تھے۔ ظفراﷲ کی کراچی والی تقریر کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور جلسے شروع ہوگئے تھے۔ حکومت نے بعض مقامات پر رہنماؤں اور کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی تھی۔مرزائیوں کے متعلق مطالبات تسلیم ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ راست اقدام کے حالات پیداہورہے تھے۔ آپ نے حج کا ارادہ ملتوی فرمادیا اور راستے سے واپس تشریف لے آئے۔ پورے ملک میں اپنے متوسلین کو ہدایت فرمائی کہ وہ تحریک میں سرگرمی سے کام کریں اور تحریک کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔
	۲…	حضرت مولانا غلام غوث صاحب ہزاروی مرحوم حضرت کے متوسلین میں تھے۔ ۲۷؍فروری ۱۹۵۳ء کو مرکزی راہنماؤں کی گرفتاریاں ہوئیں تو مولانا گرفتاری سے کسی طرح بچ گئے اور لاہور میں تحریک کا مرکز سنبھالا۔ مولانا غلام غوث صاحبؒ کے متعلق حکم تھا کہ جہاں ملیں گولی ماردی جائے۔ لاہور سے سیدھے خانقاہ سراجیہ اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت نے معتمد خصوصی صوفی احمد یار صاحب کے ذمہ لگایا کہ وہ مولانا کی حفاظت کا انتظام کریں۔ صوفی صاحب نے اپنے علاقہ بھلوال کے دیہات میں انتظام کیا۔ مولانا غلام غوث صاحبؒ وہاں آرام اور سکون سے رہے۔ تمام راہنماء رہا ہوگئے اور حالات پوری طرح معمول پر آگئے تو مولانا بھی حضرت کی اجازت سے اپنے گھر تشریف لے گئے۔
	۳…	۱۹؍جون ۱۹۵۳ء کو گورنر پنجاب نے آرڈیننس جاری کر کے تحقیقاتی عدالت قائم کی۔ جسے ’’تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب ۱۹۵۳ئ‘‘ کا نام دیاگیا۔ اس عدالت نے مجلس عمل اور مجلس احرار کو بھی الگ الگ فریق قرار دیا کہ وہ عدالت میں اپنا مؤقف پیش کریں۔ تمام رہنما جیل میں تھے۔ تحقیقات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ اپنا مؤقف مدلل طریقے سے پیش کرنے کے لئے بڑی تیاری کی ضرورت تھی۔ اس نازک اور اہم موقع پر حضرت مولانا محمد عبداﷲ صاحبؒ (حضرت ثانیؒ) نے کام کو سنبھالا۔ لاہور میں حکیم عبدالمجید سیفی مرحوم کے مکان کا نچلا حصہ خالی کرایا۔ باقاعدہ دفتر قائم کیا۔ مولانا عبدالرحیم صاحب اشعرؒ کو مستقل طور پر وہاں بٹھایا گیا۔ مذہبی اور قانونی کتابیں اکٹھی کیں۔ مجلس عمل کی وکالت مولانا مرتضیٰ احمد خان میکشؒ نے اپنے ذمہ لی اور مجلس احرار کی مولانا مظہر علی اظہرؒ نے یہ حضرات اور ان کے علاوہ بھی علماء اور قانون دان دفتر میں تشریف لاتے مشورے ہوتے اور یہیں سے عدالت کے لئے بیانات وغیرہ کی تیاری ہوتی تھی۔ حضرتؒ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter