Deobandi Books

تذکرہ خواجۂ خواجگان ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

21 - 251
تحریک شہید گنج شروع ہوگئی تو مجلس احرار کو نشانہ پر رکھ لیاگیا۔ منصوبہ تھا کہ اس تحریک میں مجلس احرار شریک ہوتو، حکومتی گولیوں سے اسے بھون دیا جائے۔ اگر احرار علیحدہ رہے تو اسے تنقید کا نشانہ بناکر عوام میں اتنا بدنام کردیا جائے کہ وہ اس تحریک کے ملبوں نیچے دم توڑ دے۔
	مشہور عالم بہاولپور مقدمہ کی تین جلدوں میں کارووائی سید عبدالماجد لاہور سے شائع کرنے لگے تو مولانا محمد مالک کاندھلویؒ کے ذریعہ ہمارے حضرت خواجہؒ صاحب سے مقدمہ تحریر کرایا۔ اس میں حضرت نے تحریر فرمایا ہے کہ: ’’مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ نے تحریک شہید گنج کے بعد ایک مجلس میں فرمایا کہ ہندوستان کے دو بزرگوں نے ہماری رہنمائی کی۔ ایک خانقاہ سراجیہ کے بانی مولانا ابوالسعد احمد خانؒ اور دوسرے حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ نے۔ کہ اس تحریک سے مجلس احرار علیحدہ رہے۔‘‘ مولانا ابوالسعد احمد خانؒ نے مجلس احرار کے رہنماؤں کو جو پیغام بھجوایا ہمارے حضرت خواجہؒ صاحب نے اس کے یہ الفاظ تحریر فرمائے۔ ’’مجلس احرار تحریک مسجد شہید گنج سے علیحدہ رہے اور مرزائیت کی تردید کا کام رکنے نہ پائے۔ اسے جاری رکھا جائے۔ اس لئے کہ اگر اسلام باقی رہے گا تو مسجدیں باقی رہیںگی۔ اگر اسلام باقی نہ رہا تو مسجدوں کو کون باقی رہنے دے گا۔‘‘
	۲؍جولائی ۱۹۳۹ء کو لالہ موسیٰ میں حضرت امیر شریعتؒ کی ایک تقریر کے مفہوم کو جعل سازی سے بدل کر حضرت امیر شریعتؒ پر بغاوت کا کیس دائر ہوا۔ لدھا رام رپورٹر نے عدالت میں اپنے بیان سے انحراف کیا تو حضرت امیرشریعتؒ بری ہوگئے۔
	اس کیس کے سلسلہ میں سالہاسال تک حضرت امیرشریعتؒ جیل میں رہے تو اس دوران جیل سے ایک بااعتماد ملاقاتی کے ذریعہ حضرت امیرشریعتؒ نے خانقاہ سراجیہ کے بانی مولانا ابوالسعد احمد خانؒ کو پیغام بھجوایا کہ آپ کے ہوتے ہوئے میں جیل میں ہوں۔ یہ بات وارہ نہیں کھاتی۔ حضرت اعلیٰؒ کو پیغام ملا تو آپؒ نے لمبا ٹھنڈا سانس لیا اور فرمایا کہ اس وقت بوڑھا ہوگیا ہوں۔ ورنہ شاہ جیؒ ایک دن بھی اندر نہ رہتے۔ غالباً کوئی عمل کرنا پڑتا جس کی مشقت اب بڑھاپے میں حضرت اعلیٰؒ کے لئے ممکن نہ تھی۔ غرض یہ کہ حضرت امیرشریعتؒ ایسے مجاہد ختم نبوت اور تحریک آزادی کے جرنیل بھی مشکل گھڑی میں جن بزرگوں کی دعاؤں کے سہارے کی ضرورت محسوس کرتے ان میں خانقاہ سراجیہ کے بانی بھی شامل تھے۔
	اسی طرح راقم نے خود حضرت مولانا محمد شریف جالندھریؒ ناظم اعلیٰ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت سے یہ روایت سنی ہے کہ اس بغاوت کے کیس میں حضرت امیرشریعتؒ جب جیل میں تھے تو ایک رات آخری حصہ میں مولانا ابوالسعد احمد خانؒ اچانک اپنی چارپائی پر اٹھ کر بیٹھ گئے اور سر جھکا لیا۔ حضرت مولانا محمد عبداﷲ حضرت ثانیؒ اسی حجرے میں خادم خاص کی حیثیت سے رہتے تھے۔ حضرت اعلیٰؒ کے یوں اچانک خلاف معمول جاگنے پر وہ بھی اٹھ کر بیٹھ گئے۔ حضرت اعلیٰؒ کے قریب ہوکر ادب سے پوچھا کہ حضرت کوئی تکلیف ہے کہ اٹھ کر بیٹھ گئے؟ تو حضرت اعلیٰؒ نے فرمایا نہیں کوئی تکلیف نہیں۔ بس امیر شریعتؒ کے جیل میں قید ہونے کا تصور مجھے سونے نہیں دیتا۔ اس پر حضرت ثانیؒ نے گھبرا کر کہا کہ حضرت کوئی پریشانی کی بات ہوگئی؟ فرمایا باالکل نہیں، اپنی گود کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ امیر شریعتؒ تو میری جھولی میں ہیں۔ اس واقعہ سے بھی جنگ آزادی کے رہنماؤں سے خانقاہ سراجیہ کے بانی کے تعلقات کا نقشہ سمجھا جاسکتا تھا۔
	۱۹۴۱ء میں حضرت اعلیٰؒ کا وصال ہوا۔ حضرت ثانیؒ مسند نشین خانقاہ سراجیہ ہوئے۔ پاکستان بنا، قادیانی منہ زور گھوڑے کی طرح بدکنے لگے تو مشہور زمانہ تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter