ومہربان تھے۔ ہرچند کہ راقم اس وادی کا مسافر نہیں۔ لیکن پڑھا اور سنا ہے کہ نقشبندی سلسلہ میں توجہ شیخ، نسخہ تصوف کا جزو اعظم ہے۔ قدرت جب کرم کرے تو مرشد حضرت اعلیٰؒ کو حضرت ثانیؒ جیسا جانشین، حضرت ثانیؒ کو ہمارے حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب جیسا مسند نشین دے دے۔ جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں اپنے اپنے شیخ کے تمام کمالات کو اپنے اندر سمولیا ؎
ایں سعادت بزور بازو نیست تانہ بخشد خدائے بخشندہ
حضرت بنوریؒ نے اپنے صاحبزادہ مولانا سید محمد بنوریؒ کو حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ کی خدمت میں مدینہ طیبہ بھیج دیا۔ حضرت بنوریؒ کے کسی ملنے والے نے کسی دوست سے پوچھا کہ محمد بنوریؒ کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا۔ دو شیوخ کی نظروں میں ہیں۔ بڑے خوش نصیب ہیں۔ دو شیوخ سے مراد ایک حضرت بنوریؒ خود اور دوسرے حضرت شیخ الحدیثؒ۔ یہ کسی اہل دل کا مقولہ ہے۔ جو ہمارے حضرت خواجہؒ صاحب پر سوفیصد ایسا صحیح فٹ آتا ہے کہ دنیا دیکھ کر عش عش کر اٹھی کہ حضرت اعلیٰؒ، حضرت ثانیؒ اپنے اپنے وقت کے دو شیوخ کی نظر التفات وتوجہ کرم نے ہمارے حضرت خواجہؒ صاحب کو بھی اپنے وقت کا صرف شیخ نہیں، بلکہ شیخ الشیوخ بنادیا۔ اسے ایک مرید کے مبالغہ پر محمول نہ کیا جائے۔ بلکہ انصاف سے دیکھا جائے تو اس وقت آپ کی ٹکر کا شیخ وقت ڈھونڈنے پر بھی نہ ملے گا۔ یہ سب اﷲرب العزت کا کرم اور شیخ زمانہ کی توجہات عالیہ اور خود ہمارے حضرت خواجہؒ صاحب کی طلب صادق پر انعام الٰہی نہیں تو اور کیا ہے؟
حضرت شیخ الہندؒ کی توجہات نے مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کو شیخ العرب والعجم بنادیا تو حضرت ثانیؒ کی فکر احسان نے مولانا خواجہ خان محمدؒ صاحب کو مرشد العلماء والصلحاء اور شیخ الشیوخ بنادیا۔ ذالک فضل اﷲ یؤتیہ من یشائ!
ہمارے حضرت خواجہؒ صاحب نے بھی اپنے مربی ومرشد، استاذ ومحسن کے کمال ادب کا نیا ریکارڈ قائم کیا کہ ان کی زندگی بھر خدمت کی سعادت حاصل کی۔ آپ کے وصال کے بعد آپ کے صاحبزادہ حافظ محمد عابدؒ صاحب کی تعلیم وتربیت، رہائش، مکان وشادی اور جملہ ضروریات کے صرف متکفل ہی نہیں رہے بلکہ ان کو بعض امور میں اولاد سے بھی زیادہ وقعت دی۔ انہیں خصائل مبارکہ وعادات کریمانہ وطلب صادق واحترام کا یہ نتیجہ نکلا کہ جس طرح حضرت اعلیٰؒ نے اپنی حیات میں حضرت ثانیؒ کو اپنا جانشین نامزد کردیا تھا اسی طرح حضرت ثانیؒ نے بھی ہمارے حضرت خواجہؒ صاحب کو چاروں سلاسل میں مجاز بیعت وخلیفہ اپنا جانشین اور خانقاہ سراجیہ کا مہتمم ومتولی نامزد فرما کر سنت شیخ پر عمل کی مثال قائم کر دی۔
تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء
خانقاہ سراجیہ کندیاں خالصتہً اصلاحی مرکز ہے۔ جو خلق خدا کا ذکر وفکر، مراقبہ ومعمولات کے ذریعہ خالق سے رشتہ جوڑنے میں مصروف عمل ہے۔ ساتھ ہی خانقاہ سراجیہ ہر دینی تحریک، اور اسلام کی پاسداری کے لئے اٹھنے والی ہر صداء کی صحیح رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ جب تحریک مسجد شہید گنج شروع ہوئی تو مجلس احرار اسلام کو تحریک شہید گنج کے رہنماؤں نے تنقید کے نشانہ پر رکھ لیا۔
ماسٹر تاج الدین انصاریؒ نے تحریک شہید گنج سے قبل قادیان سے احرار رہنماء چوہدری افضل حقؒ کو اطلاع بھجوائی کہ مرزا محمود نے قادیان سے بہت سا لٹریچر بنڈلوں میں بند کر کے ملک کے مختلف حصوں میں بھجوایا ہے۔ جس میں احرار کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ چند دنوں بعد