چنانچہ آپ خانقاہ سراجیہ تشریف لائے۔ اتفاق کی بات ہے کہ ہمارے حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب خانقاہی سفر کے سلسلہ میں ہری پور تشریف لے جا چکے تھے۔ حضرت بنوریؒ نے مزارات پر حاضری دی۔ خانقاہ شریف کے ماحول سے دل خوش کیا۔ کتب خانہ دیکھا۔ آپ نے بھی یہاں سے سرحد جانا تھا۔ تو آپ نے اپنے دورہ کی ترتیب بدلی اور ہری پور تشریف لے گئے۔ ہمارے حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب ہری پور محلہ درویش میں مولانا قاضی شمس الدینؒ کے ہاں قیام پذیر تھے۔ صبح حضرت بنوریؒ، مولانا قاضی شمس الدینؒ کی قیام گاہ پر بغیر اطلاع کے تشریف لائے۔ ہمارے حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب آپ کے رفقاء اور ہری پور کی دینی قیادت وعلماء تصور نہیں کر سکتے تھے کہ بغیر پروگرام واطلاع کے حضرت شیخ بنوریؒ ایسے متبحر عالم دین اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود یہاں تشریف فرماہوسکتے ہیں۔ ہمارے حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب، قاضی شمس الدینؒ کے ہاں ناشتہ کے لئے دسترخوان پر بیٹھے ہی تھے کہ گلی میں شور ہوا کہ حضرت بنوریؒ تشریف لائے ہیں۔ اچانک یہ خبر سنتے ہی سب عید کے چاند کی طرح حضرت بنوریؒ کے استقبال کے لئے کھڑے ہوگئے۔ اتنے میں حضرت بنوریؒ کمرہ میں داخل ہوئے۔ سب نے استقبال کیا۔ حضرت بنوریؒ نے ہمارے خواجہ خان محمدؒ صاحب سے فرمایا کہ حضرت! آپ کی تعریف سنی۔ خانقاہ شریف حاضر ہوا، کتب خانہ دیکھا، مزارات پر حاضری دی۔ آپ کے یہاں تشریف فرما ہونے کا سنا۔ دعا وملاقات کی غرض سے پروگرام تبدیل کرکے ہری پور چلا آیا۔ ہمارے حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب، حضرت شیخ بنوریؒ کی باادب اور دوزانو ہوکر بات سنتے رہے اور پھر گویا ہوئے۔ حضرت! میں کیا اور میری ملاقات کیا۔ مجھے کراچی بلوا بھیجتے۔ سعادت سمجھ کر سر کے بل حاضر ہوتا۔ یہ سب آپ کا فیض ہے۔ میں تو آپ کا شاگردہوں۔ حضرت بنوریؒ یہ سن کر چونکے۔ فرمایا وہ کیسے؟۔ مجھے تو باالکل یاد نہیں۔ کہاں، کب اور کیا پڑھا مجھ سے؟۔ حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب نے فرمایا کہ ڈابھیل میں فلاں سال مقامات آپ سے پڑھی۔ حضرت بنوریؒ نے تعجب سے پھر ہمارے حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب کو بغور دیکھا اور فرمایا باالکل یاد نہیں آرہا۔ اچھا تو کون کون سے ساتھی آپ کے ہم کلاس تھے۔ ہمارے حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب نے بعض ہم درس ساتھیوں کے نام بتائے۔ حضرت شیخ بنوریؒ نے اس پر بھی فرمایا باالکل یاد نہیں آرہا۔ خیر حضرت بنوریؒ نے دعا کے لئے فرمایا۔ حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب نے آپ کے ہاتھ باادب پکڑ کر دعاء کے لئے ایسے انداز میں التجا کی، جیسے بیٹا باپ سے یا مرید شیخ سے کرتا ہے۔ حضرت بنوریؒ کے آنسو ابل پڑے۔ دعاء ہوگئی۔ حضرت بنوریؒ نے اجازت چاہی۔ ہمارے حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب نے سواری تک استاذ محترم کو الوداع کہنے کے لئے مشایعت کی۔ چلتے چلتے حضرت بنوریؒ نے وعدہ لیا کہ جب کراچی آنا ہو قیام میرے مدرسہ میں ہوگا۔ آپؒ نے بسروچشم قبول کیا۔ حضرت بنوریؒ رخصت ہوئے۔ واپسی پر حضرت بنوریؒ نے ساتھیوں سے فرمایا کہ حضرت مولانا خان محمدؒ صاحب کو جو سنا تھا اس سے بھی بڑھ کر پایا۔ ایک تو ان کی مجلس کے برکات دیکھے۔ دوسرا چہرہ پر نور ولایت ملاحظہ کیا۔ تیسرا بے نفسی کی انتہاء کو پہنچے ہوئے، خدارسیدہ ہیں۔ اگر ذرہ برابر ان میں دنیاداری ہوتی کبھی ظاہر نہ کرتے کہ میں آپ کا شاگر دہوں۔ مریدوں پر رعب جمانے کے لئے خاموش رہتے کہ کتنا کامل ہوں کہ بنوریؒ جیسے شخص مجھے ملنے کے لئے میرے دروازے پر آئے۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ صاحب نے سب حقیقت کھول کر بیان کردی۔ یہ ان کی بے نفسی کا کمال ہے اور مجھے خوشی ہوئی کہ ایسے باکمال سے استاذ ہونے کا تعلق قائم ہے۔ غرض:
خوشبو آنست کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید
دارالعلوم دیوبند میں داخلہ