آزادی ہند کے لئے گرانقدر خدمات انجام دیں۔ پاکستان بننے کے بعد حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ نے اپنے گرامی قدر رفقاء کے ساتھ مجلس تحفظ ختم نبوت کی بنیاد رکھی تو بانی ممبران میں مولانا عبدالرحمن میانویؒ بھی شامل تھے۔ زندگی کے آخری سانس تک عالمی مجلس کے شعبہ تبلیغ سے وابستہ رہے۔ اسی طرح بہاولپور کے معروف مذہبی وسیاسی رہنماء حضرت مولانا علامہ رحمت اﷲ ارشدؒ مغربی پاکستان اسمبلی کے رکن تھے۔ پنجاب اسمبلی کے قائد حزب اختلاف بھی رہے۔ بلاء کے پارلیمنٹیرین مقرر تھے۔ خراش، تراش کر قدرت نے ملکہ خطابت آپ کو دیا تھا۔ وہ بھی ان دنوں دارالعلوم عزیزہ بھیرہ میں مدرس تھے۔ ہمارے حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب نے اس ماحول میں بھیرہ میں تین سال تک دیگر علوم کی تحصیل کی۔ بھیرہ دارالعلوم کے حضرات، خانقاہ سراجیہ سے بیعت وارشاد کا تعلق رکھتے تھے۔ اس لئے حضرت قبلہؒ کو اس نسبت سے اساتذہ نے شفقتوں سے بھرپور مالا مال کیا۔ آپ کی تعلیم وتربیت پر خصوصی نظر رکھی۔ آپ نے اپنی ذاتی شرافت، کم گوئی، بھرپور محنت وخداداد قابلیت سے اساتذہ کی نظروں میں مقبولیت حاصل کر لی۔ دارالعلوم کی انتظامیہ نے آپ کی انتظامی صلاحیتوں کو بھانپ کر، دوران تعلیم ہی آپ کو دارالعلوم کے مطبخ کا انچارج بنادیا۔ آپ نے مطبخ کا نظم اس خوبصورتی سے چلایا کہ اساتذہ، منتظمہ اور طلباء میں آپ کو ہردلعزیزی حاصل ہوگئی۔
قدرت کے فیصلے
دارالعلوم عزیزیہ میں آپ کی تعلیم کے درمیان میں ناظم تبلیغ مولانا عبدالرحمن میانویؒ تھے۔ جب آپ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر اور پھر امیر بنے تو انہی مولانا عبدالرحمن میانویؒ نے آپ کی زیرصدارت تبلیغی خدمات سرانجام دیں۔ اسی طرح مولانا رحمت اﷲ ارشدؒ جو آپ کی تعلیم کے دنوں دارالعلوم عزیزیہ کے مدرس تھے۔ جب حضرت قبلہؒ خانقاہ سراجیہ کے گدی نشین اور پھر مجلس تحفظ ختم نبوت کے نائب امیر بنے تو ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت چلی۔ تو انہیں مولانا رحمت اﷲ ارشدؒ نے آپ کا بہاولپور اسٹیشن پر استقبال کیا۔ جب بھی حضرت قبلہؒ کا خانقاہی یا مجلس کے پروگرام کے سلسلہ میں بہاولپور کا سفر ہوتا تو استقبال والوداع کے لئے اسٹیشن پر ضرور تشریف لانے میں اپنی سعادت سمجھتے اور حضرت قبلہؒ بھی ان سے بہت ہی عزت وتکریم کا معاملہ فرماتے۔ مولانا رحمت اﷲ ارشدؒ نے ایک دن مجلس میں فرمایا کہ:
’’مولانا خواجہ خان محمدؒ صاحب کی زبان پر تقدیر بولتی ہے۔‘‘ حاضرین نے اس جملہ پر ان کی طرف تعجب سے دیکھا تو انہوں نے اپنا واقعہ سنایا کہ ایوب خان کے عہد اقتدار میں میرے بھائی ولی اﷲ اوحد پر مارشلاء میں کیس چلا، سزا ہوگئی۔ اس کے لئے میں بہت فکر مند تھا۔ لاہور، اسلام آباد اپنے متعلقین سے پورا اثرورسوخ استعمال کرنے، سفارشیں کروانے کے باوجود کامیابی نہ ہوئی۔
اسی سلسلہ کے ایک سفر سے بہاولپور اسٹیشن اترا تو اسٹیشن پر دوسری طرف بہت سے تعلق والے علمائ، صلحاء کے جم غفیر کو دیکھا۔ ملنے پر معلوم ہوا کہ مولانا خواجہ خان محمدؒ صاحب کی تشریف آوری ہے۔ استقبال کی غرض سے یہ حضرات جمع ہیں۔ استقبالیوں کے ساتھ میں بھی انتظار میں کھڑا ہوگیا۔ ٹرین آئی، حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب اترے تو باری آنے پر مصافحہ کرتے ہی ولی اﷲ اوحد اپنے بھائی کی سزا کی بابت اپنی پریشانی کا عرض کیا۔ حضرت قبلہؒ نے سن کر ایک لمحہ توقف کیا اور پھر فرمایا کہ: ’’آپ اسلام آباد چلے جائیں۔ اﷲ تعالیٰ بھلا فرمائیں گے۔‘‘ میں ضرورت مند تھا۔ کس کے پاس جانا ہے؟۔ کیا کرنا ہے؟۔ کچھ نہ پوچھا۔ اتنے میں کراچی سے ٹرین آرہی تھی۔ ٹکٹ لیا اور راولپنڈی چلاآیا۔ وی آئی پی لاونج میں ایوب خان کے بھائی بہادر خان مل گئے۔ جو ان کے استقبال کے لئے آئے تھے۔ ان سے ساری صورتحال عرض کی۔ انہوں نے حامی بھرلی۔