حضرت مولانا خواجہ خان محمدؒ صاحب جب تعلیم کے قابل ہوئے تو آپ کو بستی ڈنگ کے قریب موضع کھولہ کے لوئر مڈل سکول میں داخل کرایا گیا۔ آپ نے چھٹی جماعت تک یہاں پر تعلیم حاصل کی۔
لطیفہ غیبی
ایک دن خانقاہ سراجیہ کے بانی حضرت مولانا خواجہ ابوالسعد احمد خانؒ المعروف ’’اعلیٰ حضرت‘‘ نے اپنے چچازاد اور پیربھائی ملک خواج عمرؒ سے فرمایا کہ آپ کے پاس ایسی تین چیزیں ہیں جو میرے پاس نہیں۔ ان میں سے ایک مجھے دے دیں۔ ان دنوں خانقاہ سراجیہ کے لنگر خانہ میں دودھ دینے والی کوئی بھینس نہ تھی۔ خواج عمر صاحبؒ کے پاس تین بھینسیں دودھ دینے والی تھیں۔ اس لئے آپ سمجھے کہ لنگر کے لئے بھینس کا حضرت اعلیٰؒ اشارہ فرمارہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تینوں بھینسیں لنگر کے لئے حاضر ہیں۔ حضرت اعلیٰؒ مسکرائے اور فرمایا کہ ہمیں آپ کی بھینسوں سے سروکار نہیں۔ آپ اپنے تینوں بیٹوں میں سے (ابھی ملک محمد افضلؒ آپ کے سب سے چھوٹے بیٹے کا تولد نہ ہوا تھا) ایک مجھے دے دیں۔ خواج عمر صاحبؒ نے ایک لمحہ سوچے بغیر فرمایا کہ جون سا بیٹا آپ فرمائیں حاضر ہے۔ حضرت اعلیٰؒ نے ہمارے حضرت خواجہ خان محمدؒ کی بابت فرمایا کہ یہ ہمیں دے دیں۔ سچ ہے کہ: ’’قدر زر زرگر بداند قدر جوہر جوہری۔‘‘ حضرت اعلیٰؒ کی خدمت اور آپ کی علمی وروحانی وراثت وجانشینی، خانقاہ سراجیہ کی ترقی، سلسلہ نقشبندیہ کی ترویج اور دین اسلام کی اشاعت کے لئے یوں ہمارے حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب کو اﷲرب العزت نے منتخب فرمالیا۔ فا الحمد لللّٰہ!
ہمارے حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب سکول چھوڑ کر دینی تعلیم کے لئے وقف ہوگئے۔ اس زمانہ میں خانقاہ سراجیہ، جامع مسجد، کتب خانہ، تسبیح خانہ، مہمان خانہ کی تعمیر کا کام ہورہا تھا۔ حضرت اعلیٰؒ کی سرکردگی میں آپ کے خلیفہ وجانشین حضرت مولانا محمد عبداﷲ لدھیانویؒ المعروف ’’حضرت ثانی‘‘ اس کام کے نگران تھے۔ حضرت ثانیؒ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل تھے۔ حضرت اعلیٰؒ نے ہمارے حضرت خواجہ خان محمدؒ صاحب کو پڑھانے کے لئے حضرت ثانیؒ اور حضرت مولانا سید عبداللطیف شاہؒ احمد پور سیال کو حکم فرمایا۔ آپ نے اﷲتعالیٰ کا نام لے کر ان اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور دینی تعلیم میں مشغول ہوگئے۔ تعلیم کے ساتھ اپنے اساتذہ گرامی ذی وقار کے ساتھ خانقاہ سراجیہ کی ابتدائی تعمیر میں بھی شامل رہے۔ آپ نے مولانا عبداللطیف شاہؒ سے قرآن مجید اور ابتدائی کتب اور حضرت ثانیؒ سے صرف ونحو کی تعلیم مکمل کی۔ قرآن مجید، فارسی نظم ونثر، صرف ونحو کی تکمیل کے بعد بھیرہ ۱۹۳۷ء میں بقیہ تعلیم کے لئے تشریف لے گئے۔
بھیرہ میں تعلیم
انجمن حزب الانصار بھیرہ کے زیراہتمام دارالعلوم عزیزیہ بھیرہ کا اس دور میں چہار سو شہرہ تھا۔ حضرت مولانا نصیرالدین بگویؒ اور حضرت مولانا ظہور احمد بگویؒ دونوں خانقاہ سراجیہ کے بانی حضرت اعلیٰؒ سے بیعت تھے۔ اس تعلق کی بناء پر آپ کو دارالعلوم عزیزیہ بھیرہ میں حضرت اعلیٰؒ نے داخل کرایا۔ اس زمانہ میں دارالعلوم عزیزیہ کا اہتمام حضرت مولانا ظہور احمد بگویؒ کے پاس تھا۔ آپ بہت ہی متبحر عالم، مناظر اور مبلغ اسلام تھے۔ ان دنوں بھیرہ حزب الانصار کے ناظم تبلیغ حضرت مولانا عبدالرحمن میانویؒ تھے۔ مولانا عبدالرحمن میانویؒ بہت بڑے خوش الحان مقرر اور شعلہ نوا، جفاکش خطیب تھے۔ بعد میں آپ نے مجلس احرار اسلام کل ہند کے پلیٹ فارم سے