Deobandi Books

شناخت مجدد ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

50 - 112
خوشخبری کی رو سے اس طوفان طاعون میں بطور کشتی کے ہوگا۔ نہ معلوم کس کس کو بشارت کے وعدے سے حصہ ملے گا۔ اس لئے یہ کام بہت جلدی کا ہے۔ خدا پر بھروسہ کرکے جو خالق اور رازق ہے اور اعمال صالحہ کو دیکھتا ہے کوشش کرنی چاہئیے ۔ میں نے بھی دیکھا کہ ہمارا گھر بطور کشتی کے تو ہے مگر آئندہ اس کشتی میں نہ کسی مرد کی گنجائش ہے نہ عورت کی۔ اس لئے اس کی توسیع کی ضرورت پڑی۔‘‘
( المشتہرمرزا غلام احمد قادیانی کشتی نوح ص۷۶‘ خزائن ج۱۹ص۸۶‘مجموعہ اشتہارات ج۳ص۴۷۶‘۴۷۷)
	اب ناظرین اس اشتہار کو پڑھ کر خود ہی اندازہ لگالیں کہ کس خوبصورتی اور دانشمندی کے ساتھ مریدوں کے دلوں میں آثار پرستی کا بیج بویا جارہا ہے۔ مجدد کا کام یہ نہیں کہ مریدوں کے چندہ سے اپنے مکان کی توسیع کے لئے کوشاں ہو اور نہ یہ اس کے شایان منصب ہے کہ وہ لوگوں میں ضعف اعتقاد پیدا کرے۔ یہ بات سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے کہ کوئی مکان یا احاطہ انسان کو موت کے چنگل سے محفوظ رکھ سکے۔ موت جس وقت آتی ہے ’’بروج مشیدہ‘‘ میں بھی انسان کو نہیں چھوڑتی مکان مسکونہ کو کشتی نوح سے تعبیر کرنے میں ادبی خوبی ہو تو ہو۔ دینی اور ایمانی خوبی مطلق نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ مریدوں میں پیر پرستی اور آثار پرستی کا رنگ پیدا ہوجائے جو اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف اور موجب نقصان آخرت ہے۔
	اس جگہ ایک شبہ یہ پیش کیا جاسکتا ہے کہ مرزا قادیانی کو اپنے مریدوں پر پورا اختیار تھا۔ تم اعتراض کرنے والے کون! اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مرید تھے تو ملت اسلامیہ ہی کے افراد۔ وہ ہمارے ہی بھائی تھے جو اس عجوبہ پرستی کا شکار ہوگئے اور یقینا ہمارا دل ان کے لئے کڑھتا ہے۔
	اس سلسلہ میں لاہوری احمدیوں سے جو مرزا قادیانی کو مجدد تسلیم کرتے ہیں یہ سوال دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اگر فی الواقع بہشتی مقبرہ کے متعلق مرزا قادیانی کے ارشادات صداقت پر مبنی ہیں تو وہ اپنے متعلق کیا کہیں گے۔ جبکہ یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے کہ ۱۹۱۴ء سے اب تک ان کی جماعت کا کوئی فرد بعد وفات اس سعادت عظمیٰ سے بہرہ اندوز نہیں ہوا اور نہ آئندہ اس کی کوئی امید ہے؟۔ کیا بہشتی مقبرہ کی برکات سے محروم ہوجانا لاہوری احمدیوں کے لئے موجب نقص ایمان نہیں؟۔ مرزا قادیانی نے بہشتی مقبرہ اپنی جماعت کے افراد کے لئے تیار کیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ لاہوری حضرات اب وہاں! بار نہیں پاسکتے۔ تو کیا اس لحاظ سے وہ مرزا قادیانی کی جماعت سے خارج نہیں ہوگئے؟۔ ان کے اخراج قادیان کے متعلق الفضل نے بالکل بجا طور پر اظہار تاسف کیا ہے۔ چنانچہ ۱۵جنوری۱۹۳۵ء کے پرچہ میں اس طرح اظہار خیالات کیا گیا ہے۔
	’’ دافع البلاء میں حضرت اقدس نے فرمایا ہے کہ قادیان خدا کے رسول کا تخت گاہ ہے لیکن غیر مبالعین نے اس مقدس مقام سے بکلی قطع تعلق کرلیا اور محمد علی لاہوری نے حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کے استفسار پر کہا کہ کیا میں قادیان چھوڑ سکتا ہوں؟۔ لیکن وہ یہاں سے ایسے گئے کہ پھر بھولے سے بھی ادھر کا رخ نہ کیا۔ ہاں! انہوں نے اس قادیان کو چھوڑا جس کے متعلق خواجہ کمال الدین صاحب بھی کبھی یوں کہا کرتے تھے:
شفائے ہر مرض در قادیاں است
شدہ دارالاماں کوئے نگارے
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter