Deobandi Books

شناخت مجدد ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

46 - 112
ایں کار از تو آید ومرداں چنیں کنند
	مثلاً۱۸۸۶ء میں بشیر احمد کے متعلق پیشگوئی کی کہ یہ لڑکا بڑا ہوکر اولوالعزم اور نامور ہوگا:’’ کان اﷲ نزل من السمائ۰‘‘  کا مصداق ہوگا۔ لیکن وہ لڑکا ۱۸۸۷ء ہی میں فوت ہوگیا۔
	 ثانیاً‘ محمدی بیگم صاحبہ کے متعلق پیشگوئی کی وہ میری زوجیت میں ضرور آئے گی۔ یہ تقدیر مبرم ہے۔ اگر یہ پیشگوئی غلط نکلے تو میں جھوٹا۔ لیکن قدرت خدا وندی ملاحظہ ہو مرزا غلام احمد قادیانی ۱۹۰۸ء میں انتقال بھی کرگے اور یہ پیشگوئی جس کے متعلق انہیں ’’زوجنکھا‘‘ کا الہام بھی ہوچکا تھا پوری نہ ہوئی۔
	ثالثاً‘ ڈپٹی عبداﷲ آتھم کی پندرہ ماہ کے اندر موت کی پیشگوئی کی مگر وہ بھی غلط نکلی۔
	رابعاً ‘ڈاکٹر عبدالحکیم مرحوم کے متعلق پیشگوئی کی تھی کہ میرے سامنے مریں گے لیکن ان کا انتقال ۱۹۲۲ء میں ہوا۔ یعنی مرزا قادیانی کی وفات کے ۱۴ سال کے بعد۔
	خامساً‘ شیر اسلام مولانا ثناء اﷲ صاحب امرتسریؒ کے متعلق ۱۹۰۷ء میں مرزا غلام احمد قادیانی نے لکھا تھا کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو آپ کی زندگی میں ہلاک ہوجائوں گا مقام عبرت ہے کہ مرزا قادیانی ۱۹۰۸ء میں بعارضہ اسہال فوت ہوگیا اور مولانا ہنوز زندہ ہیں۔
	اگر مرزا قادیانی کو مقام ولایت یا تقرب الی اﷲ حاصل ہوتا تو خدا تعالیٰ ان کے مخالفین کو اس طرح ان پر ہنسنے کا موقع نہ دیتے۔ چونکہ عربی فارسی جانتے تھے اس لئے قدمأ مصنفین کی کتب سے استفادہ کرکے چند کتابیں لکھ دیں اور مطالعہ کتب مروجہ کیا تھا۔ اس لئے چند مناظرے کرلئے۔ لیکن علوم باطنی سے کوئی بہرہ نہیں رکھتے تھے اس لئے جب اس میدان میں گامزن ہوئے تو ہر قدم پر لغزش ہوئی اور لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا:
کوئی بھی قول مسیحا ترا پورا نہ ہوا
نامرادی میں ہوا ہے ترا آنا جانا
	اولیاء اﷲ کی زندگی میں وہ کشش اور جاذبیت ہوتی ہے کہ غیر کلمہ پڑھنے اور محبت کا دم بھرنے لگتے ہیں۔ رجوع خلائق کا یہ عالم ہوتا ہے کہ بادشاہان وقت کو ان کے مرتبہ پر رشک وحسد ہونے لگتا ہے لیکن یہاں معاملہ بنوع دیگرہے جس کی تفصیل آئندہ اوراق میں ملے گی۔
	مختصر یہ ہے کہ علم ظاہری اور علم باطنی دونوں کے لحاظ سے مرزا قادیانی کا مرتبہ ایسا نہیں کہ انہیں مجددین اسلام کی زریں فہرست میں شامل کیا جائے۔ جس کو یقین نہ ہو وہ ان کی مبہم اور ژولیدہ تصانیف کو پڑھ کر دیکھ لے۔
معیار دوم: اصلاح عقائد ورسوم وخیالات باطلہ
	دوسری اہم اور ضروری شرط جس کا پایا جانا ایک مجدد میں لازمی امر ہے یہ ہے کہ اس کے اندر اصلاح احوال (ریفارم) کی زبردست قوت وصلاحیت پائی جاتی ہے اور وہ عملاً مسلمانوں کے خیالات ورسوم وعقائد کی اصلاح کردیتا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے کہ ایک درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے تو یہ ایک مجدد کی سب سے بڑی مگر سب سے آسان شناخت ہے کہ وہ لوگوں کو اسلام کا اصلی چہرہ از سر نو دکھادیتا ہے۔ خیالات فاسدہ اور رسوم باطلہ اور عقائد ناقصہ سب کی قولاً اور 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter