Deobandi Books

شناخت مجدد ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

44 - 112
	یہ یقین کس طرح پیدا ہوجاتا ہے تزکیہ نفس وتصفیہ باطن کیونکر ہوتا ہے۔ دروغ گوئی‘ خودبینی‘ فریب کاری وغیرہ عادات قبیحہ کیونکر دور ہوسکتی ہیں؟ انسان نفس امارہ کے چنگل سے کس طرح رہائی حاصل کرسکتا ہے؟ اس علم کو علم باطن کہتے ہیں۔
	چونکہ اس علم کا منتہی مقام ولایت ہے اس لئے جو شخص علم باطنی میں ماہر ہوتا ہے اسے عرف عام میں ولی اﷲ کہتے ہیں۔ اگرچہ ہر ولی کے لئے مجدد ہونا ضروری نہیں لیکن مجدد کے لئے ولی اﷲ ہونا اشد ضروری ہے۔ کیونکہ دین کی تجدید بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ اور میں پھر کہتا ہوں۔ خواہ مجھ پر تکرار مضمون کا الزام ہی کیوں نہ عائد ہو جائے کہ چند کتابیں تصنیف کرلینے یا چند پیشگوئیاں کردینے یا چند لیکچر سنادینے یا مناظرے کر لینے سے کوئی شخص مجدد نہیں بن سکتا۔
	اب میں ناظرین کی آگاہی کے لئے چند باتیں اولیاء اﷲ کے متعلق لکھتا ہوں۔ تاکہ مجددین امت کا مرتبہ اور مقام سمجھنے میں آسانی ہو۔
	ہندوستان میں جو اولیاء اﷲ گزرے ہیں ان میں حضرت داتا گنج بخش صاحبؒ لاہوری‘ حضرت سلطان الہند خواجہ غریب نواز اجمیریؒ‘ حضرت خواجہ قطب الدین دہلویؒ‘ حضرت سلطان المشائخ محبوب الٰہی دہلویؒ‘ حضرت فرید الدین گنج شکر اجودہمنیؒ‘ حضرت صابر صاحب کلیریؒ‘ حضرت خواجہ باقی باﷲ  ؒ‘ حضرت بہائو الدین نقشبندؒ‘ حضرت خواجہ گیسودرازؒ بہت مشہور ومعروف ہیں اور ان بزرگان دین کے علمی وعملی کارنامے آج بھی زبان زد خاص وعام ہیں۔ ان کی پاکیزہ زندگیوں پر طائرانہ نگاہ ڈالیئے۔ آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ اولیاء اﷲ کی زندگی کیسی ہوتی ہے اور اس کی بناء پر آپ بآسانی یہ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مجدد کی زندگی کیسی ہونی چاہئے کیونکہ ہر مجدد ولی اﷲ بھی ہوتا ہے۔ جزوی اختلافات سے قطع نظر کرلیجئے۔ کیونکہ ہر فرد کی سرشت دوسرے سے کچھ نہ کچھ مختلف ہوتی ہے۔ مفصلہ ذیل امور سب کی پاکیزہ زندگیوں میں مشترک نظر آتے ہیں۔
	۱۔۔۔ان میں سے کسی شخص نے سلاطین وقت یا حکومت کے سامنے دریوزہ گری نہیں کی۔ خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی دنیاوی طاقت سے مرغوب نہیں ہوئے بلکہ خود سلاطین وقت ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور ان کے سامنے دست بستہ کھڑے ہونے کو سعادت اخروی یقین کرتے تھے اور آج بھی جبکہ یہ بزرگان دین بظاہر ہماری نگاہوں سے روپوش ہوچکے ہیں۔ ان کی باطنی کشش کا یہ عالم ہے کہ ایک دنیا ان کی آرام گاہوں کی خاک طوطیائے چشم بناتی ہے اور دامن امید گلہائے مراد سے بھرتی ہے۔ 
	انہی کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ہے:
	’’الا ان اولیاء اﷲ لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون۰‘‘
	اس کے برخلاف مرزا غلام احمد قادیانی کی زندگی سرکار دولت مدار کی چوکھٹ پر ناصیہ فرسائی کرتے گزر گئی اور اس شعر کا مفہوم ورد زبان رہا:
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی
	اس کی پوری تفصیل اور تحریری شہادت آگے آئے گی۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter