Deobandi Books

شناخت مجدد ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

35 - 112
ایک برہنہ سے نہ یہ ہوگا کہ تا باندھے ازار
(درثمین ص۱۴۳‘براہین پنجم ص۱۲۰‘خزائن ص۱۵۱ج۲۱)
	مضمون کی رکاکت سے قطع نظر کیجئے اس ’’کہ تا‘‘ کو دیکھئے کم از کم اردو شاعری میں تو اس کا جواب کہیں مل نہیں سکتا۔ غالباً اسی قسم کی ادبی خوبیوں کو دیکھ کر ان کے متبعین نے انہیں سلطان القلم کا خطاب دیا ہے۔
	بقیہ تصانیف میں زیادہ تر مخالفین کے حق میں دشنام طرازیاں‘ فرومعی پیشگوئیاں‘ ذاتی تعلّیاں‘ سرکار کی مدح سرائی‘ اپنی وفاداری‘ چندہ کی طلب اور نبوت ورسالت کی تشریحات لایعنی پائی جاتی ہیں۔ان میں سے کوئی بات ایسی نہیں جو بنی نوع آدم کے لئے دوامی فائدہ کی قرار دی جائے یا جس کو پڑھ کر مسلمانوں کا ایمان تازہ ہوسکے۔ آخر الذکر بات یعنی اپنی نبوت کی تشریح تو اس قدر مبہم اور پیچیدہ ہے کہ لاہوری اور قادیانی دونوں جماعتوں میں مابہ النزاع بنی ہوئی ہے اور میرا خیال تو یہ ہے کہ مرزا قادیانی خود بھی آخر تک یہ نہ سمجھ سکے کہ میں کس قسم کا نبی ہوں؟ قادیانی پارٹی اس امر کی معترف ہے کہ حضرت صاحب  کو ۱۹۰۱ء تک اپنے دعویٰ کی سمجھ نہیں آئی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کیفیت ۱۹۰۸ء تک قائم رہی اور ان کی تمام عمر اقرار نبوت اور انکار نبوت کی الجھن میں بسر ہوگئی۔ کیونکہ اگر بقول قادیانی پارٹی ۱۹۰۱ء میں ان کو اپنے نبی ہونے کا حقیقی اور مستقل نبی ہونے کا یقین ہوگیا تھا۔ تو ۱۹۰۴ء میں وہ یہ نہ کہتے:
	’’سمیت نبیاًلا علی وجہ الحقیقۃ بل علی طریق المجاز۰‘‘ ’’یعنی میرا نام حقیقی طور پر نبی نہیں رکھا گیا بلکہ محض مجازی طور پر ‘‘
(الاستفتا‘ ضمیمہ حقیقت الوحی ص۲۴‘خزائن ج۲۲ص۶۸۹)
	اور یہ ظاہر ہے کہ حقیقی نبی اپنے آپ کو مجازی نبی نہیں کہہ سکتا۔
	آخر میں ایک بات ان کے مبلغ علم کے متعلق اور بھی کہنا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ مرزا قادیانی نے کئی خطوط چراغ علی کو لکھے تھے کہ براہ کرم فلاں مبحث پر مجھے اپنی تحقیقات کے نتائج سے مطلع کیجئے اور فلاں مضمون جس کا آپ نے وعدہ فرمایا تھا جلد بھیجئے تاکہ میں اسے اپنی کتاب میں شامل کرسکوں۔ مجدد زماں اور یہ دریوزہ گری موجب صد استعجاب ہے۔
	یہ تمام خطوط مولوی سید محمد یحییٰ صاحب تنہا‘بی اے نے اپنی کتاب سیرالمصنفین میں درج کئے ہیں اور ان کے مطالعہ سے یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے کہ مرزا قادیانی نے مولوی چراغ علی صاحب مرحوم سے علمی رنگ میں استفادہ کیا تھا۔ مولوی صاحب کے مضامین جن لوگوں نے پڑھے ہیں وہ اس بات میں مجھ سے متفق ہوں گے کہ ان کے تمام مضامین میں محققانہ رنگ پایا جاتا ہے اور یہ بات انہیں مرزا قادیانی پر نمایاں فوقیت عطا کرتی ہے۔ کیونکہ آپ ان (مرزا قادیانی)کی تمام کتابیں پڑھ جائیے کسی جگہ تحقیق (ریسرچ) کی جھلک نظر نہیں آئے گی۔
	کس قدر تعجب کی بات ہے کہ جو شخص سلطان القلم ہو بلکہ مجدد ہو جس کا دعویٰ یہ ہو کہ میں جب لکھتا ہوں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شخص مجھے اندر سے تعلیم دے رہا ہے جس کا ذہنی ارتقاء آنحضرتﷺ سے بھی زیادہ ہو۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter