Deobandi Books

شناخت مجدد ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

34 - 112
	لیکن مرزا قادیانی نے کوئی کتاب ایسی نہیں لکھی جس کو پڑھ کر ایک مسلمان ان کے تبحر علمی اور اجتہاد فکر کا معترف ہوسکے۔ اگر میں ان کی تصانیف پر تفصیلی تبصرہ کرنے لگوں تو یہ مضمون ایک ضخیم کتاب بن جائے گا۔ اس لئے یہ بات تو اس وقت ممکن نہیں۔ تاہم بعض اشارات ضروری ہیں تاکہ میرا دعویٰ پایہ ثبوت کو پہنچ سکے۔
	مرزا قادیانی نے ۱۸۸۵ء میں براہین احمدیہ کا اشتہار بڑے طمطراق کے ساتھ دیا تھا کہ اس کتاب میں اسلام کی حقانیت پر ایک دو نہیں پورے تین سو دلائل عقلیہ ایسے لکھے جائیں گے جو انسان تو کیا چشم فلک نے بھی نہ دیکھے ہوں گے۔ لیکن پانچ حصے لکھنے کے باوجود ہنوز وہ تین سو دلائل مدعی کے نہانخانہ دماغ سے عالم وجود میں نہیں آئے اور چونکہ ۱۹۰۸ء میں مرزا قادیانی کا انتقال ہوگیا۔ اس لئے اب کوئی امید بھی باقی نہیں۔ سچ کہا ہے کسی نے کہ :
جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں
	جن لوگوں نے علمائے اسلام کی عربی تصانیف پڑھی ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مرزا قادیانی نے سرمہ چشم آریہ‘ نسیم دعوت‘ آئینہ کمالات اسلام اور نورالقرآن وغیرہ میں جو کچھ لکھا ہے وہ سب کا سب حکماء اور صوفیائے اسلام کی تصانیف سے ماخوذ ہے۔
	حقیقت الوحی‘ تریاق القلوب‘ ازالہ اوہام اور توضیح المرام وغیرہ کتب میں جو کچھ خامہ فرسائی کی ہے وہ اپنی نبوت کی تشریح ہے یا وفات مسیح کے اثبات کی کوشش ہے۔
	جنگ مقدس‘ چشمہ مسیحی‘ آریہ دہرم‘ ست بچن‘ انجام آتھم‘ تحفہ گولڑویہ وغیرہ مناظرہ اور مجادلہ کی کتابیں ہیں اور باالیقین کہا جاسکتا ہے کہ مولوی رحمت اﷲ صاحب مرحوم نے عیسائیوں کے مقابلہ میں اور مولانا محمد قاسم صاحب مرحوم نے آریوں کے مقابلہ میں ان سے بدرجہا بہتر کتب تصنیف کی ہیں۔ مسیحیت کی تردید میں جو دلائل عقلیہ ونقلیہ مولوی صاحب مرحوم کی کتب ازالہ اوہام‘ ازالۃ الشکوک اور اظہار الحق میں پائے جاتے ہیں۔ مرزا قادیانی کی تمام کتابوں میں ان کا عشر بھی موجود نہیں اور قاسم العلومؒ نے تقریر دلپذیر‘ میلہ خدا شناسی‘ قبلہ نما‘ انتصار الاسلام‘ جواب ترکی بترکی میں جس عالمانہ طریق پر اسلام کی حقانیت آریہ دھرم کے مقابلہ میں ثابت کی ہے وہ انداز بیاں مرزا قادیانی یہاں تلاش کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی گدائے بے نوا کے گھر میں سچے موتیوں کی تلاش؟۔ فلسفیانہ نگارش تو بڑی چیز ہے۔ مرزا قادیانی تو اردو بھی صحیح نہیں لکھ سکتے تھے۔ ہر قسم کی اغلاط ان کی تحریر میں موجود ہیں۔
	دوباتیں مرزا قادیانی کی تمام کتب میں قدر مشترک کے طور پر پائی جاتی ہیں مسیح کی وفات کا مسئلہ اور برطانیہ کی خیر خواہی‘ اسی ایک مسئلہ کو انہوںنے ہر کتاب میں لکھا ہے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو ان کے اس ’’کارنامہ‘‘ میں بھی کوئی جدت نظر نہیں آتی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات پر انہوں نے کوئی دلیل ایسی نہیں دی جو لٹریچر میں پہلے سے موجود نہ ہو۔ ان سے کہیں زیادہ موثر پیرائے میں سرسید نے اس مضمون کو اپنی تفسیر میں لکھا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ سید صاحب کے یہاں مرزا قادیانی کا ساطرز تحریر نہیں پایا جاتا۔
	مرزا قادیانی نے نثر کے علاوہ نظم میں بھی داد سخن دی ہے اور اس میدان میں بھی ان کا دامن اغلاط سے پاک نہیں ہے۔ افسوس کہ میں اس مختصر مضمون میں ناظرین کو ان الہامی شاعری کے سب نمونے نہیں دکھا سکتا۔ صرف ایک مصرعہ پر اکتفا کرتا ہوں۔ قیاس کن زگلستان من بہار مرا۔ وہ مصرع یہ ہے:
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter