Deobandi Books

شناخت مجدد ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

33 - 112
لئے بیاسی کتابیں لکھنے کی ضرورت نہیں۔ یہ بات صرف ایک کتاب کے لکھنے سے ظاہر ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ لکھنے والے میں کوئی جوہر موجود ہو۔
	BRADLAy نے مدۃ العمر میں دو چار کتابیں لکھی ہوں گی لیکن اس کے ایک ہی فلسفیانہ مضمون جس کا عنوان AFFEARUEE AND REALITY ہے۔ اسے فلاسفہ کی پہلی صف میں جگہ دلوادی۔ ہزار بچگان روباہ‘ ایک طرف اور ایک بچہ شیر ایک طرف۔ ذوق کا سارا دیوان ایک طرف غالب کا ایک شعر ایک طرف۔
	علامہ اقبالؒ نے اب تک جس قدر کتابیں تصنیف کی ہیں ان کی تعداد چھ یا سات سے زیادہ نہیں لیکن ان کی صرف ایک ہی تصنیف اس پایہ کی ہے کہ اس کے متعلق عقلائے دہر کا فتویٰ یہ ہے کہ یہ کتاب عصر حاضر کے مظاہر اکبر میں سے ہے اور بالیقین کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کی آئندہ نسلیں اس کتاب پر فخر کیا کریں گی۔ اس کتاب کے ایک ایک صفحہ سے حضرت مصنف کی ژرف نگاہی اور بالغ نظری‘ وسعت معلومات اور تبحرعلمی دقت نظر اور اجتہاد فکر کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ سچ کہا گیا ہے کہ:
ایں سعادت بزوربازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
	علاوہ بریں تفسیر کبیر‘ احیاء العلوم‘ حجتہ اﷲ البالغہ اس پایہ کی کتابیں ہیں کہ ہر زمانہ میں علماء اور فضلاء نے ان سے استفادہ کیا ہے اور ان کے مصنفین کی علمیت کا اعتراف کیا ہے لیکن مرزا قادیانی کی جس قدر کتابیں ہیں ان میں سے کسی کتاب سے کسی عالم نے کبھی استفادہ نہیں کیا۔ عوام کا اس جگہ ذکر نہیں کیونکہ مجدد وہ ہوتا ہے جس کی تصانیف سے خواص بھی بہرہ اندوز ہوسکیں۔ علاوہ بریں علمیت کا اندازہ عوام نہیں کرسکتے۔
	اس جگہ اگر کوئی شخص یہ شبہ وارد کرے کہ بعض علمائے دہر نے قرآن مجید جیسی کتاب سے استفادہ نہیں کیا تو مرزا قادیانی پر کیا اعتراض ہے؟۔ اس کے دو جواب ہیں۔
	پہلا جواب یہ ہے کہ کوئی مسلمان نہیں جو قرآن مجید کی افادیت کا انکار کرسکے۔ اس جگہ غیر مسلم دنیا سے بحث نہیں ہے۔ تمام مسلمانوں نے تفسیر کبیر‘ احیاء العلوم اور حجتہ اﷲ البالغہ سے استفادہ کیا اور اس حقیقت کا کھلے دل سے اعتراف کیا لیکن دنیائے اسلام میں کسی عالم نے مرزا قادیانی کی کتب سے استفادہ نہیں کیا۔ استفادہ درکنار ان کی تردید میں ضخیم کتابیں لکھی ہیں۔
	دوسرا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کو پیش کرنا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ یہ کتاب ایک نئے مذہب کی حامل ہے اور ہدایت کی مدعی ہے یہ کسی ایسے انسان کی تصنیف نہیں جو مجددیت کا مدعی تھا یا جس کے لئے علوم ظاہری میں بلند مرتبہ ہونا شرط ہو۔ یہ توخدا کا کلام ہے جو ایک امی انسان پر نازل ہوا اور چونکہ اس کتاب نے کفرو اسلام میں خط فاصل کھینچ دیا۔ اس لئے لامحالہ اس کے منکروں نے اس سے روگردانی کی۔ لیکن مجدد کی تصنیف کفرو اسلام میں حد فاصل کھینچنے والی نہیں ہوتی۔ وہ صرف اس کے تبحر علمی کا نشان ہوتی ہے اور اسے دنیا اس نظر سے دیکھتی ہے کہ مصنف کی پرواز فکر کہاں تک ہے۔ یہ ایک ایسے انسان کی تصنیف ہوتی ہے جو نبوت کا مدعی نہیں ہوتا۔ چنانچہ یورپ کے اکثر علماء ڈاکٹر اقبالؒ کی تصنیفSIX LECTURES کے بلند پایۂ فلسفیانہ کتاب ہونے کے معترف ہیں۔ اگرچہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter