Deobandi Books

شناخت مجدد ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

32 - 112
	اس شعر کی رو سے مرزا قادیانی اپنی شان کے لحاظ سے آنحضرت ختمی مرتبت ﷺ سے بھی چار قدم آگے نظر آتے ہیں اور چونکہ بار گاہ خلافت سے اس شعر پر شاعر کو کافر قرار نہیں دیا گیا۔ اس لئے ہم نامحرمان سرا‘پردئہ خلافت قادیان‘ یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ’’وابستگان دامن محمود‘‘ مرزا قادیانی کو آنحضرتﷺ سے بھی برتر یقین کرتے ہیں۔
	الغرض مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور بکرّات ومرّات کیا ہے۔ جس میں کسی شبہ کی مطلق گنجائش نہیں ہے۔ پس ان کو منہاج نبوت ہی پر پرکھنا مناسب ہے۔ لیکن لاہوری حضرات اس امر پر مصر ہیں کہ انہوں نے صرف مجددیت کا دعویٰ کیا ہے۔ اس لئے اپنے اتمام حجت کرنے اور مسلمانوں کو حقیقت حال سے آگاہ کرنے کے لئے ہم مرزا غلام احمد قادیانی کو منہاج مجددیت پر ہی پرکھیں گے۔ 
	لسان الغیب فرماتے ہیں:
خوش بود گر محک تجربہ آید بمیاں
تاسیہ روئے شود ہرکہ دروغش باشد
معیار اول: علوم ظاہری وباطنی
	علوم ظاہری کے متعلق خود مرزا قادیانی کی شہادت ملاحظہ ہو جو انہوں نے اپنی تالیف کتاب البریہ ص۱۳۵ خلاصہ حاشیہ‘ خزائن ج۱۳ص۱۸۱‘۱۸۰‘۱۷۹میں یوں قلمبند کیا ہے:
	’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خاں معلم میرے لئے نوکر رکھا گیا جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کی کتابیں مجھے پڑھائیں…… جب میری عمر تقریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لئے مقرر کئے گئے۔ ان سے میں نے صرف ونحو حاصل کی… جب میں اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا جن سے میں نے منطق‘ حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا۔‘‘
	اس شہادت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے جیسا کہ آج سے ایک صدی پیشتر عام دستور تھا۔ درس نظامیہ ختم کیا ہوگا۔ اگرچہ ان کے اساتذہ میں کوئی شخص ہندوستان کا نامور عالم نہیں تھا لیکن یہ بات چنداں اہم نہیں کیونکہ مجدد کی مجددیت کا انحصار اساتذہ پر نہیں ہے۔ حضرت شاہ ولی اﷲ صاحبؒ نے بھی معمولی اساتذہ سے درس نظامیہ ہی ختم کیا تھا لیکن جس چیز نے انہیں سر آمد فضلائے روزگار بنادیا وہ ان کی ذاتی قابلیت تھی جو انہیں اﷲ تعالیٰ نے ارزانی فرمائی تھی کیونکہ اﷲ تعالیٰ ان سے ایک خاص کام لینا چاہتا تھا۔ چنانچہ انہوں نے حجتہ اﷲ البالغہ جیسی معرکتہ الآرا اور غیر فانی کتاب تصنیف کی جس کے سامنے بقول علامہ شبلی نعمانی  ؒ‘ رازیؒ اور غزالی ؒ کے کارنامے بھی ماند پڑگئے۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگرچہ مرزا قادیانی نے چھوٹی بڑی ملاکر پچاس سے اوپر ہی کتابیں لکھ ڈالیں لیکن کوئی کتاب اس قابل نہیں کہ اسے حجتہ اﷲ البالغہ تو خیر بڑی چیز ہے علمی کتب کے مقابلہ میں بھی رکھا جائے۔ ان کے متبعین کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے بیاسی کتب تصنیف کیں۔ بہت خوب! ممکن ہے انہوں نے نوے لکھی ہوں لیکن کسی شخص کی علمیت کا اندازہ تصانیف کی تعداد سے نہیں ہوتا۔دیکھنا یہ ہے کہ ان میں لکھا کیا ہے؟ دقت نظر‘ اجتہاد فکر‘ تبحر علم‘ زوربیان‘ وسعت معلومات اور ندرت خیال کے اظہار کے 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter