Deobandi Books

شناخت مجدد ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

30 - 112
	مقصود اس تحریر سے یہ ہے کہ لاہوری جماعت کے وہ لوگ جو آج مرزا غلام احمد قادیانی کو صرف مجدد اور خادم اسلام قرار دے رہے ہیں ذرا خدا کو حاضرو ناضر جان کر بتائیں کہ اگر فی الحقیقت مرزا غلام احمد قادیانی کا دعویٰ صرف مجددیت ہی کا تھا اور اگر وہ آنجہانی کو صرف مجدد ہی سمجھتے تھے تو کیوں نہ انہوں نے اس وقت یہ کہا کہ جناب والا! مجدد پر ایمان لانا کونسی نص صریح سے ثابت ہے جو آپ منکرین کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے رہے ہیں؟۔اگر آپ مجدد ہیں تو لوگوں کو کتاب وسنت کی طرف بلائے جائیں:’’لست علیھم بمصیطر۰‘‘ جس کا جی چاہے آپ کی بات مانے جس کا جی چاہے نہ مانے۔ آپ کا منصب صرف اصلاح ہے۔ اصلاح کئے جائیں۔ اپنے وجود کو شرط اسلام قرار دینا یعنی چہ؟۔
	لہذا معلوم ہوا کہ جو لوگ آج ۱۹۳۵ء میں مرزا غلام احمد قادیانی کو صرف مجدد قرار دیتے ہیں ۱۹۰۵ء میں انہیں نبی ہی تسلیم کرتے تھے۔ پس آج ان کا یہ کہنا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نبی نہ تھے کتمان حق بھی ہے اور خلاف واقعہ بھی۔ کیوں نہ یہ بات ۱۹۰۵ء میں کہی۔
	اس کے علاوہ لاہوری فریق میں ایسے افراد بھی ہیں جنہوں نے ۱۹۰۶ء کے ریویو آف ریلیجنز ج۵ شمارہ نمبر۴ص۱۳۲ میں مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی لکھا ہے اور مرزا قادیانی نے اپنے اعلانات سے اس عقیدہ پر مہر توثیق ثبت فرمائی۔ پس معلوم ہوا کہ مرزا قادیانی کا دعویٰ نبوت حقیقی کا تھا اور لاہوری جماعت کے افراد بھی ۔ (کیونکہ ۱۹۱۴ء سے پہلے اس جماعت کا وجود ظاہر میں نہ تھا ان کو نبی ہی سمجھتے تھے۔)
	مرزا غلام احمد قادیانی کو مجدد ظاہر کرنے کی ’’بدعت‘‘ ۱۹۱۴ء سے شروع ہوئی جب حکیم نورالدین خلیفۃ المسیح اوّل کی وفات پر جماعت میں اختلاف پیدا ہوا اور قادیانی اور لاہوری دو فریق بن گئے۔ قادیانی جماعت ۱۹۰۱ء کے بعد کی تحریرات کو مستند سمجھتی ہے اور اس سے پہلی تحریرات کو منسوخ سمجھتی ہے۔ لاہوری جماعت ۱۹۰۱ء سے پہلے کی تحریرات کو پیش کرتی ہے اور ۱۹۰۱ء کے بعد کی اپنی اور مرزا قادیانی دونوں کی تحریرات کو کالعدم تصور کرتی ہے۔ لاہوری جماعت کے لوگ ۱۹۱۴ء سے پہلے مرزا قادیانی کو منہاج نبوت پر پرکھا کرتے تھے اور ریویو کے فائل اس دعویٰ پر شاہد ہیں۔ اگر یہ لوگ مرزا قادیانی کو نبی نہیں سمجھتے تھے تو پھر انہیں منہاج نبوت پر پرکھتے کیوں تھے؟۔ چنانچہ ۱۹۰۵ء میں جب ریاست حیدر آباد میں موسیٰ ندی میں طغیانی آئی اور ہزار ہا بندگان خدا نذر سیلاب ہوگئے تو لاہوری جماعت کے ایک سر برآوردہ رکن نے ’’صحیفہ آصفیہ‘‘ لکھ کر حضورنظام کو اس حقیقت کبریٰ کی طرف متوجہ کیا تھا کہ یہ عذاب جو آپ کی رعایا پر نازل ہوا ہے اس لئے ہے کہ انہوں نے اس زمانہ کے نبی کو (جسے نذیر کی قرآنی اصطلاح کے پردہ میں پیش کیا گیا تھا) تسلیم نہیں کیا اور اپنے دعویٰ کے ثبوت میں قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کیا تھا:
	’’ ماکنا معذبین حتیٰ نبعث رسولا۰ ‘‘{یعنی ہم کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتے جب تک اس قوم میں ایک رسول مبعوث نہ کردیں۔}
	پس صحیفہ آصفیہ کے مصنف کے ذہن میں مرزا غلام احمد قادیانی مجدد نہ تھے بلکہ رسول تھے اور اس کی تائید خود مرزا غلام احمد قادیانی نے یوں فرمادی:
	’’ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی اور رسول ہیں۔‘‘(بدر۵مارچ۱۹۰۸ء ‘ملفوظات ج۱۰ص۱۲۷)
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter