Deobandi Books

شناخت مجدد ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

28 - 112
ہوتے ہیں لیکن وہ ان پر نازاں نہیں ہوتے۔ وہ دوسروں کے لئے جیتے ہیں اپنے لئے نہیں اور اسی میں سروری کا راز مضمر ہے۔
	۱۰…کارہائے نمایاں:دسویں اور آخری شرط مجددیت یہ ہے کہ مجدد اپنی زندگی میں کوئی ایسا کارہائے نمایاں انجام دے جس کو دیکھ کر آنے والی نسلیں بھی اس کے مرتبہ کا اعتراف کریں۔ جیسے ہم انگریزی میں WORK OF PERMANT VALUE کہہ سکتے ہیں۔ خواہ وہ کام جہاد سے متعلق ہو یا تقریر سے‘ تحریر سے وابستہ ہو یا تصنیف سے‘ اصلاح رسوم سے متعلق ہو یا قیام چشمہ فیض سے۔
	مثلاً امام غزالی  ؒ کی احیاء العلوم ‘ امام رازیؒ کی تفسیر اور شاہ ولی اﷲ صاحبؒ کی حجتہ اﷲ البالغہ ایسی کتابیں ہیں جن کو پڑھ کر ہر مصنف مزاج انسان ان بزرگوں کی جلالت شان کا معترف ہوجاتا ہے’’ مشک آنست کہ خود ببویدنہ کہ عطار بگوید‘‘لطف تو اسی بات میں ہے کہ مجدد کی ظاہری اور باطنی زندگی ایسی ہو کہ اس کے ہمعصر اور آئندہ نسلیں جب اس کے کارنامے دیکھیں تو غلبہ ٔظن کی بنا پر اسے خود بخود مجدد کا لقب دے دیں۔ مجدد کا کام یہ ہے کہ لوگوں کو کتاب اور سنت کی طرف بلائے۔ اسلام کو از سر نو زندہ کردے۔ بدعات کا قلع قمع کردے۔ لوگ اسے خود بخود مجدد کہنے لگیں گے۔ اس کے لئے نہ دعویٰ کرنا ضروری ہے نہ مسلمانوں پر اس کی شناخت فرض ہے۔ دعویٰ تو وہ کرتا ہے جو نئی بات یا نیا پیغام لاتا ہے۔ 
	مجدد تو صرف کتاب وسنت کو پیش کرتا ہے جو پہلے سے موجود ہوتی ہے لیکن لوگ ان دونوں کی طرف سے غافل ہوجاتے ہیں۔ اس کا کام یہ ہے کہ اسلام کی اصلی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرے اور اپنے طریق عمل سے لوگوں میں اسلامی شریعت پر عامل ہونے کی تحریک پیدا کردے اور کوئی کام ایسا کرجائے جس کو دیکھ کر آنے والی نسلیں اس کے مرتبہ کو بآسانی شناخت کرسکیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی
	ہمارے زمانہ میں قادیان میں ایک مدعی پیدا ہوئے جنہوں نے مجددیت اور نبوت کا دعویٰ کیا۔ ان کی وفات کے بعد ان کی امت دو حصوں میں منقسم ہوگئی۔ قادیانی اور لاہوری۔ اول الذکر فریق کا دعویٰ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی مدعی نبوت تھے اور ان کا منکر اسی طرح کافر ہے جس طرح آنحضرتﷺ کا‘ لاالہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ! اب بے کار ہے جب تک اس کے ساتھ مرزا قادیانی کی نبوت کا بھی اقرار نہ کیا جائے۔ اس عقیدہ کی تردید میں فقیر نے ایک مضمون بعنوان ’’ختم نبوت‘‘ لکھ کر خدا کی حجت اس گروہ پر پوری کردی۔
	آخر الذکر فریق کا دعویٰ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی مدعی نبوت نہ تھے بلکہ چودہویں صدی کے مجدد تھے اور ان کے تسلیم نہ کرنے سے کوئی مسلمان اگرچہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوسکتا لیکن ایک شدید غلطی کا مرتکب ضرور ہوتا ہے۔ پس میں نے مناسب سمجھا کہ مسلمانوں کے فائدہ کے لئے اس فریق کے دعویٰ کو بھی کسوٹی پر پرکھ لیا جائے تاکہ مسلمان اس بات کا فیصلہ کرسکیں کہ آیا مرزا غلام احمد قادیانی اس لائق ہے کہ اسے چودہویں صدی کا مجدد تسلیم کیا جائے۔
	اس لئے میں نے گذشتہ اوراق میں حدیث مجدد کی حتی المقدور صراحت ووضاحت کرکے وہ معیار ناظرین کے سامنے رکھ دیا ہے جس پر مدعی مجددیت کو پرکھا جاسکتا ہے۔ مرزا غلام احمد قادیانی کو اس معیار پر پرکھنے سے قبل اس فریق کی خدمت میں بعض حقائق پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter