Deobandi Books

شناخت مجدد ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

27 - 112
	۷ …قبولیت: ساتویں شرط مجدد بننے کے لئے یہ ہے کہ اس میں مقنا طیسی کشش پائی جائے جو دراصل روحانیت اور خدا رسی کی بدولت پیدا ہوتی ہے۔ حضرت سید احمد صاحب رائے بریلویؒ  کہ صدی سیزدھم کے مجددین میں سے تھے۔ صفت روحانیت سے نمایاں طور پر متصف تھے۔ لوگ ان سے مناظرہ کرنے آتے تھے لیکن ان کے حلقہ بگوش ہوکر واپس جاتے تھے۔ کلکتہ کے زمانہ قیام میں انہوں نے ہزار ہا مسلمانوں کو از سر نو مسلمان بنا دیا۔ کتاب وسنت کو زندہ کرنا ان کا دن رات کا مشغلہ تھا اور یہی ایک مجدد کا مقصد حیات ہوتا ہے۔
	اولیاء اﷲ بھی اپنے اپنے زمانہ میں اصلاح کا کام کرتے ہیں۔ اس لئے ان میں بھی یہ صفت نمایاں ہوتی ہے۔ کون سا مسلمان ہے جو میرے آقا اور مولیٰ حضرت خواجہ معین الدین اجمیریؒ کی روحانیت سے واقف نہیں ہے۔ جوگی جیپال پر جوفتح حضور نے پائی اسے جانے دیجئے۔ وہ تو حضرت ختمی مرتبت سردار دوجہاں تاجدار مدینہﷺ کی غلامی کا ایک ادنیٰ کرشمہ تھا۔ روزانہ زندگی اس قدر روحانیت سے لبریز تھی کہ جس پر ایک نگاہ پڑگئی اس کی کایاپلٹ گئی۔ وصال کے بعد بھی حضور کا مزار پرانوار مرجع سلاطین رہا۔بڑے بڑے کجکلاہ آستان بوسی اور ناصیہ فرسائی کو اپنے لئے موجب سعادت سمجھتے رہے۔ یہ سب روحانیت ہی کے کرشمے ہیں۔
	مجددین میں بھی یہ صفت لازمی طور پر پائی جاتی ہے۔ روحانیت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ روحانیت کو مجدد سے وہی نسبت ہے جو خوشبو کو پھول سے۔ خوشبو نہ ہو تو پھول کس کام کا؟۔ محض منطق اور فلسفہ سے انسان خود اپنے آپ کو مطمئن نہیں کرسکتا۔ دوسروں کو کیا ایمان اور ایقان عطا کرے گا؟۔ حکمت نظری کافی ہوتی تو امام غزالی  ؒکیوں نواح دمشق میں بادیہ نشینی اختیار کرتے؟۔
	۸…دنیادار نہ ہو:مجدد کے لئے آٹھویں شرط یہ ہے کہ وہ دنیاوی بکھیڑوں سے بالکل پاک صاف ہو۔ دنیا میں رہے لیکن دنیاوی امور سے بالکل الگ تھلگ۔ باہمہ دلے بے ہمہ خاصان خدا کی ہر زمانہ میں یہی روش رہی ہے۔ شاہ ولی اﷲ صاحبؒ اور مولانا محمد قاسمؒ صاحب کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں۔ یہ بزرگ بظاہر دنیا میں رہتے تھے لیکن دنیا دارا نہ تھے۔ ان کی تمام تر توجہ خدا اور اس کے پسندیدہ دین کی طرف مبذول رہتی تھی اور ہر وقت تبلیغ واشاعت اسلام میں مصروف رہتے تھے۔ نہ کسی سے چندہ طلب کرتے تھے نہ اشتہار شائع کرتے تھے۔
	۹…عاجزی وانکساری:نویں شرط یہ ہے کہ مجدد میں عاجزی اور انکساری پائی جائے۔ مجدد وہ ہے جو حلم اور فروتنی‘ ایثار اور تحمل کا ایک پیکر مجسم ہو :’’نہد شاخ پر میوہ سربر زمین‘‘ باوجود عالم ہونے کے اپنے آپ کو دوسروں سے برتر نہ سمجھے۔ جس قدر اس کی شہرت ہوتی جائے وہ خاکساری اختیار کرے۔ مولانا محمد قاسم صاحبؒ کو جن لوگوں نے دیکھا ہے ان کا بیان ہے کہ وہ سادگی اور فروتنی میں اپنی مثال آپ ہی تھے۔ کبھی کوئی کلمہ غرور یا تکبر کا ان کی زبان سے نہیں نکلا۔ اجنبی لوگوں کو یہ گمان بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ قاسم العلوم کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ تمام عمر نان جویں پر قناعت کی اور کھدر کے علاوہ کوئی کپڑا زیب تن نہیں فرمایا۔اگرچہ ایک دنیا ان کی کفش برداری کو موجب سعادت سمجھتی تھی لیکن ان کے کسی قول یا فعل سے یہ بات کبھی مترشح نہیں ہوئی کہ وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں۔
	حقیقت بھی یہی ہے کہ جو شخص اپنی حقیقت سے آگاہ ہوجاتا ہے وہ اپنے آپ کو ہیچ سمجھتا ہے اور اپنی زندگی کا مقصد دوسروں کی خدمت قرار دیتا ہے۔ فخرومباحات سے کوسوں دور رہتا ہے کہ یہ بات اس امر کا ثبوت ہے کہ نفس اماّرہ ابھی زندہ ہے۔ ایسے لوگوں سے فوق العادت کام ظاہر 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter