Deobandi Books

قادیانیوں سے فیصلہ کن مناظرہ ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

5 - 206
	یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حضور ختمی مرتبتa کی ختم نبوت کسی بھی دلیل کی محتاج نہیں۔ اس کے باوجود تاریخ کے مختلف ادوار میں ختم نبوت کے ناقابل تسخیر قلعہ میں بعض ’’مہم جو‘‘ سارقوں نے نقب زنی کی کوشش کی۔ ان میں سے ہر ایک کو منہ کی کھانا پڑی۔ ختم نبوت ایک واضح اور شفاف عقیدہ ہے۔ ایک حقیقی مؤمن اس عقیدے کے تحفظ کو اپنی حیات مستعار کا اوّلین فریضہ تصور کرتا ہے۔ قرن اوّل میں صحابہؓ نے منکرین ختم نبوت کے استیصال کے لئے جہاد بالسیف کیا۔ یہ جہاد بعد کے ادوار میں بھی جاری رہا۔ انیسویں صدی کے آخری عشرہ میں برطانوی استعمار نے برصغیر میں مرزاغلام احمد قادیانی نامی ایک طالع آزما شخص کو اپنے مخصوص اہداف وعزائم کے حصول کے لئے اس امر پر آمادہ کیا کہ وہ اعلان نبوت کرے۔ تب سے جنوب مشرقی ایشیاء کے اس خطے کے پرستار ان شمع ختم نبوت نے تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کام شروع کیا۔ بیسویں صدی کے پہلے عشرہ سے ردقادیانیت کا مسئلہ ایک نئے موضوع کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ اس دور کے جید، اکابر اور مستند اعاظم رجال نے اس جھوٹے مدعی ٔ نبوت کے وکیلان صفائی سے مباحثوں کا سلسلہ شروع کیا۔ ان مباحثوں کو ہماری مخصوص مسلم معاشرت میں مناظرے کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔ مناظروں کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ اس تاریخ کی ایک اہمیت بھی ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد جب اس خطے میں برطانوی ملوکیت کا غلبہ قائم ہوگیا تو عیسائی پادریوں نے بلاجواز مسلمانوں کو دعوت مناظرہ دینا شروع کی۔ اس ضمن میں کئی شہرہ آفاق مناظرے ہوئے۔ اسی تسلسل میں قادیانیوں نے بھی اپنے مربی عیسائی حکمرانوں کی روش پر چلتے ہوئے مسلمان اکابرین کو مباہلوں، مجادلوں اور مناظروں کے لئے چیلنج کرنا شروع کیا۔ بسااوقات مسیلمۂ پنجاب مرزاغلام احمد قادیانی کو بھی انگیخت ہوتی اور وہ مسلمانوں کے ایسے دینی، علمی اور روحانی رہنماؤں اور پیشواؤں کو مباہلے اور مناظرے کی دعوت دے بیٹھتے۔ جنہیں اسلامیان برصغیر اپنی ارادتوں اور عقیدتوں کا مرجع جانتے۔ حضرت پیر مہر علی شاہؒ گولڑہ شریف، حضرت پیر جماعت علی شاہؒ، حضرت مولانا احمد حسن امروہویؒ، حضرت مولانا رحمت اﷲ کیرانویؒ اور مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ نے سینہ تان کر اس کی دعوت کو قبول کیا۔ خم ٹھونک کر شیرانہ اور مردانہ وار میدان میں آئے۔ لیکن شغال صفت اور روباہ مزاج مرزاقادیان ہر بار میدان سے روپوش رہا۔ وہ ذہنی طور پر ان بڑی شخصیات کے علمی شکوہ اور فکری طنطنے سے مرعوب اور ہراساں تھا۔ ردقادیانیت اور تحفظ ختم نبوت کے حوالے سے جو چراغ اکابرین امت نے روشن کیا تھا، ان کے متبعین نے اس کی لوؤں کے طرے کو سربلند رکھنے کے لئے ہر دور میں اپنے خون جگر کا روغن زرتاب فراہم کیا۔ اس موضوع پر انہوں نے کسی بھی قادیانی سے بات کرتے ہوئے ہمیشہ سنجیدگی، ثقاہت اور علمی متانت کو اپنا ہتھیار بنایا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ اس وضع کے مناظرے نہیں تھے، جس کی ابتداء ایتھنز کے سوفسطائیوں نے رکھی تھی۔ مسلم مناظرین نے لفظی ہیرپھیر سے ہمیشہ اجتناب برتا۔ جب کہ قادیانی مناظر سوفسطائیوں کی پیروی کرتے ہوئے لفظی ہیرپھیر ہی کو اپنا کارگر ہتھیار تصور کرتے رہے۔ قادیانی مناظر لفظی ہیرپھیر کو نامناسب نہیں سمجھتے۔ اس کے برعکس اس دور میں مناظر بے بدل حضرت مولانا اﷲ وسایا صاحب مدظلہ نے ’’ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ‘‘ کو اپنا شعار بنایا۔ قادیانی سوقیانہ پن اور ابتذال کا مظاہرہ کرتے اور مولانا گھر سے یہ طے کر کے آتے کہ کووں کی کائیں کائیں سن کر عندلیب ہزارداستاں نے اپنی روش زمزمہ پیرائی کو ترک نہیں کرنا۔ حقیقت یہ ہے کہ قادیانی مناظرہ کو مناظرہ نہیں ’’مناقرہ‘‘ (چونچ بازی) سمجھتے ہیں۔ سو! حضرت مولانا اﷲ وسایا صاحب، باطل کے ان وکیلان صفائی کے روبرو حق کے وکیل استغاثہ کے روپ میںپیش ہوتے رہے اور فاتح عیسائیت جناب احمددیدات کی طرح مناظرے کو مقدمہ جان کر ایک ماہر وکیل کی طرح ہر پہلو سے اس کی تیاری کر کے میدان میں اترتے اور انہیں نوک دم بھاگنے پر مجبور کر دیتے۔ میں نے ان کے ایسے کئی مناظرے خود دیکھے اور سنے ہیں۔ بڑے بڑے قادیانی مبلغین ان سے گفتگو کرتے وقت ہچکچاتے، گھبراتے بلکہ سٹپٹاتے دیکھے گئے ہیں۔ جب میں قادیانی مناظرین کو مولانا کے دلائل کی تاب نہ لاکر 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter