Deobandi Books

قادیانیوں سے فیصلہ کن مناظرہ ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

4 - 206
انتہائی اہم ہیں، جن کا ترجمہ یہ ہے: ’’(۱)وہ رحمن ہے۔ (۲)اس نے قرآن سکھایا۔ (۳)اسی نے انسان کو پیدا کیا۔ (۴)اس نے اس کو بات کرنا سکھایا۔‘‘
	بات کرنا اور سلیقے سے بات کرنا بلاشبہ ایک فن ہے، مجھے کہنے دیجئے کہ یہ عطیات خداوندی میں سے ہے، یونانی تو اسے باقاعدہ  Gift of the Gab  سے تعبیر کیا کرتے تھے، بات برائے بات تو کوئی بات نہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ ادھر کوئی لفظ اور جملہ آپ کے ہونٹوں کا الوداعی بوسہ لے، اور ادھر وہ مخاطب اور سامع کے دل میں یوں اتر جائے جیسے صدف کی آغوش میں ابرنیساں کا قطرہ اترتا ہے۔ بات کرنے کا سلیقہ یونہی نہیں آجاتا، یہ سلیقہ سیکھنے کے لئے شائق کو ریاضت اور مشق کی کئی جانکاہ وادیوں کا پرمصائب اور جانگسل سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ اوّلین دور میں صرف اور صرف الفاظ ہی سب سے بڑی میڈیائی قوت ہوا کرتے تھے۔ اس دور میں جب انسان قبائلی زندگی بسر کر رہا تھا، قبائل کی تنظیم وتشکیل اور نظام قبائل کا قیام واستحکام ایسے ہی افراد کی مرہون منت ہوا کرتا تھا، جو اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا ڈھنگ جانتے تھے۔ قبائل بات کرنے کے فن سے آشنا فرد ہی کے سر پر سرداری کی دستار رکھا کرتے تھے۔ قبل از اسلام یونانیوں میں ڈیماستھنز، رومیوں میں سسرو اور عرب دنیا میں امراؤ القیس ایسے خطباء کو اہم مقام حاصل تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی خطابت کے پرستار ان کی شخصیت اور فن کی پوجا کیا کرتے تھے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ انسانی ہدایت کے لئے خدا نے ہر بستی میں کوئی نہ کوئی ہادی اور رہبر بھیجا۔ انہیں اسلامی اصطلاح میں رسول، نبی یا پیغمبر کہا جاتا ہے۔ ہر رسول، نبی اور پیغمبر انفرادی واجتماعی خوبیوں کے لحاظ سے اکمل شخصیت ہوتا۔ ہر لحاظ، ہر جہت اور ہر پہلو سے ایک مکمل ترین شخصیت۔ اکملیت ہی ان مکمل ترین شخصیات کو ریاست اور معاشرے کے دوسرے شہریوں پر فوقیت اور برتری عطا کرتی۔ ہر نبی زبردست قوت اظہار کا مالک ہوتا۔ اس کی فصاحت وبلاغت مسلم الثبوت ہوتی۔ عرب فصاحت وبلاغت اور اظہار وابلاغ کے باب میں خود کو باقی اہل عالم سے افضل واعلیٰ گردانتے۔ خاتم الانبیاء حضور سرور عالم محمد عربیa نے زعم زبان آوری اور خبط طلاقت لسانی میں مبتلا ان فصحائے عالم کے روبرو اعلائے کلمتہ الحق کیا… اور … اس ناقابل تسخیر فصاحت وبلاغت میں کیا کہ وہ انگشت بدنداں دکھائی دیے۔ فصحائے عرب کی فصاحت وبلاغت کا نقطہ اختتام حضور ختمی مرتبت(a) کی گفتگو کا نقطہ آغاز ٹھہرا۔ آپa جب بھی لب کشا ہوتے، مجمع ساکت وصامت ہو جاتا۔ آپa کا ارشاد گرامی ہے کہ مجھے ’’جوامع الکلم‘‘ عطا کئے گئے ہیں۔ جہاں تک قرآن کی فصاحت وبلاغت کا تعلق ہے تو اس کا یہ چیلنج چودہ سو چالیس برس سے بدستور برقرار ہے کہ ’’آپ (بطور چیلنج) ان س کہہ دیجئے کہ اگر تمام انسان اور جن اس پر جمع ہوں کہ اس قرآن جیسا بنالائیں تو وہ اس جیسا ہرگز نہ لاسکیں گے، اگرچہ وہ ایک دوسرے سے مدد لیں۔‘‘ 		     (بنی اسرائیل:۸۸)
	ایک دوسرے مقام پر یہ چیلنج ان الفاظ میں دہرایا گیا۔ ’’اور اگر تم اس کلام کی نسبت جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا ہے، شک میں ہو تو اس جیسی ایک سورۃ تم بھی بنالاؤ اور اﷲ کے سوا جو تمہارے مددگار ہیں، ان کو بھی بلالو، اگر تم سچے ہو، پھر اگر ایسا نہ کر سکو اور تم ہرگز نہیں کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور وہ کافروں کے واسطے تیار کی گئی ہے۔‘‘ 					          (البقرہ:۲۳)
	داعی ٔ قرآن کا یہ فرمان بھی اسلام کے ہر داعی کے پیش نظر رہا ہے کہ: ’’بلاشبہ بعض دفعہ بیان میں بھی سحر ہوتا ہے۔‘‘ 				      (مشکوٰۃ ص۴۰۹)
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter