Deobandi Books

قادیانیوں سے فیصلہ کن مناظرہ ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

41 - 206
علیہ السلام کی ذات گرامی کی توہین کرتا تھا۔ مسلمانوں پر کفر کا فتویٰ لگاتا تھا۔ جھوٹ بولتا تھا، حرام کھاتا تھا، وعدہ خلاف تھا، شراب کے حصول کے لئے کوشش کرتا تھا، نبوت تو درکنار اس میں ایک اچھے انسان کے بھی اوصاف نہ تھے، تو پھر اس پر غور کرنے یا قادیانی مربیوں سے پوچھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ قادیانی مربی جن کا وظیفۂ حیات ہی جھوٹ کو اپنانا اور پھیلانا ہے، وہ آپ کو کیوںکر صحیح رہنمائی دیں گے۔ اس لئے آپ وعدہ کریں اور ایک سچے طالب حق ہونے کے ناطے مجھ سے مطالبہ کریں کہ آپ مجھے یہ حوالے دکھائیں۔ اگر ایسے ہے تو میں قادیانیت ترک کر دوں گا۔ اگر آپ ایسا عہد نہیں کرتے تو میں سمجھوں گا کہ آپ گفتگو ضرور کریں گے۔ مگر طالب حق ہونے کے رشتہ سے نہیں بلکہ محض اپنا بھرم رکھنے کے لئے۔ ایک طالب حق کو سمجھانا اور ایک بزعم خود بھرم رکھنے والے سے گفتگو کرنے کے لئے علیحدہ علیحدہ اسلوب ہیں۔ اب مجھ سے کیا اسلوب اختیار کرنے کے طالب ہیں؟ یہ آپ پر منحصر ہے۔
قادیانی نمبردار:  مولانا مجھے تو آپ صرف حیات عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ قرآن سے سمجھا دیں۔ باقی جو حوالہ جات آپ نے فرمائے ہیں، ان سے مجھے دلچسپی نہیں ہے۔
فقیر:  محترم اب میں آپ پر اور سامعین پر انصاف چھوڑتا ہوں کہ وہ فیصلہ کریں کہ آپ طالب حق ہیں یا محض گفتگو کے خواہش مند۔ اس لئے کہ اگر آپ طالب حق ہوتے تو میری ان (متذکرہ) باتوں کے سنتے ہی چیخ اٹھتے اور آپ کے ضمیر کی صدا آپ کی زبان پر نوحہ کناں ہوتی کہ اگر مرزا ایسا ہے تو پھر مجھے مرزااور قادیانیت سے کوئی سروکار نہیں۔ میں حیات عیسیٰ علیہ السلام پر گفتگو کروں گا، ضرور کروں گا۔ مگر ان حوالہ جات کی تفصیلات آپ مجھ سے طلب کریں کہ کیا واقعی مرزا ایسا تھا؟ اگر ثابت ہو جائے کہ ایسے تھا تو پھر مرزائیت پر چار حرف۔ اس کے بعد میں آپ کو پھر ایک مسلمان ہونے کے حوالہ سے حیات عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ سمجھاؤں گا۔
قادیانی نمبردار:  مولانا میرے نزدیک اصل مسئلہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا ہے، اگر یہ صحیح ثابت ہو جائے تو پھر مرزا کو چھوڑ دوں گا۔ باقی جن حوالہ جات کا آپ نے فرمایا ہے مجھے ان سے سروکار نہیں۔
	سامعین میں سے ایک بزرگ نے کہا کہ مولانا خدا آپ کا بھلا کرے، ہم اس شخص کے متعلق رائے رکھتے تھے کہ یہ مسئلہ سمجھنا چاہتا ہے۔ مگر آپ نے اس سے اگلوا لیا کہ یہ بجائے مسئلہ سمجھنے کے محض دفع الوقتی کر رہا ہے۔
قادیانی نمبردار:  ایسے نہیں آپ میرے ذمہ الزام نہ لگائیں۔ آپ لوگ مولوی صاحب کو پابند کریں کہ وہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا مسئلہ سمجھائیں۔ عیسیٰ علیہ السلام زندہ، تو مرزا جھوٹا۔
فقیر:  محترم آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے آپ نے سنجیدگی سے قادیانیت کے کیس پر غور نہیں کیا۔ ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات یا حیات سے مرزاقادیانی کے سچے یا جھوٹے ہونے کا کیا تعلق؟ یہ ایسے ہے کہ ایک مراثی کے بیٹے نے ماں سے پوچھا کہ اگر نمبردار مر جائے تو پھر کون نمبردار ہوگا۔ ماں نے کہا اس کا بیٹا۔ لڑکے نے کہا کہ اگر وہ بھی مرجائے تو پھر کون ہوگا؟ ماں نے تنگ آکر کہا کہ بیٹا میں سمجھ گئی کہ سارا گاؤں بھی مر جائے تو پھر بھی مراثی کے لڑکے کو کوئی نمبردار نہیں بنائے گا۔ آپ غور فرمائیں کہ مرزاقادیانی حقیقت میں عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کا منکر نہ تھا۔ بلکہ وہ اس کا قائل تھا۔ بعد میں جب اسے خود مسیح بننے کا شوق ہوا تو کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سیٹ پر قبضہ کے لئے اپنی تقرری کے لئے سیٹ خالی کرانا چاہتا ہے۔ سیٹ کے جھگڑا سے قبل اس کی ’’اسناد لیاقت‘‘ چیک کر لیں کہ اس کی حیثیت کیا ہے؟ اس 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter