Deobandi Books

قادیانیوں سے فیصلہ کن مناظرہ ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

37 - 206
قادیانی مربی:  چلیں! اس آیت کو چھوڑیں۔ میں ایک آیت اور وفات مسیح کی پیش کرتا ہوں۔
فقیر:  پہلے آپ تسلیم کریں کہ اس آیت ’’قد خلت‘‘ سے وفات مسیح ثابت نہیں ہوتی۔ پھر دوسری پیش کریں۔
قادیانی مربی:  میں کیوں تسلیم کروں۔ پہلے دوسری آیت پڑھتا ہوں۔
پروفیسر صاحب:  دیکھئے مربی صاحب! آپ نے جو پہلی آیت پڑھی ہے۔ اس سے آپ کا مقصد واضح نہیں ہوا۔ آپ کا اس سے دعویٰ ثابت نہیں ہوا۔ تب ہی تو آپ دوسری آیت کی طرف جاتے ہیں۔ اب ہم مولانا سے کہیں گے کہ حیات مسیح پر دلیل دیں۔ پھر آپ اس کا جواب دیں۔
قادیانی مربی:  بالکل ٹھیک ہے۔ مولوی صاحب! دیں حیات مسیح علیہ السلام کے دلائل
فقیر:  جی! پہلی آیت: ’’اعوذ باﷲ من الشیطان الرجیم۰ بسم اﷲ الرحمن الرحیم۰ فبما نقضہم میثاقہم وکفرہم باٰیٰت اﷲ وقتلہم الانبیاء بغیر حق وقولہم قلوبنا غلف۰ بل طبع اﷲ علیہا بکفرہم فلا یؤمنون الا قلیلا۰ وبکفرہم وقولہم علیٰ مریم بہتانا عظیما۰ وقولہم انا قتلنا المسیح عیسیٰ بن مریم رسول اﷲ وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ ما لہم بہ من علم الا اتباع الظن وما قتلوہ یقینا۰ بل رفعہ اﷲ الیہ وکان اﷲ عزیزاً حکیما (نسائ:۱۵۵تا۱۵۸)‘‘ {ان کو جو سزا ملی سو ان کی عہد شکنی پر اور منکر ہونے پر اﷲ کی آیتوں سے اور خون کرنے پر پیغمبروں کا ناحق اور اس کہنے پر کہ ہمارے دل پر غلاف ہے۔ سو یہ نہیں بلکہ اﷲ نے مہر کر دی ان کے دل پر کفر کے سبب۔ سو ایمان نہیں لاتے۔ مگر کم اور ان کے کفر پر اور مریم پر بڑا طوفان باندھنے پر اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے قتل کیا مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو جو رسول تھا اﷲکا اور انہوں نے نہ اس کو مارا اور نہ سولی پر چڑھایا۔ لیکن وہی صورت بن گئی ان کے آگے اور جو لوگ اس میں مختلف باتیں کرتے ہیں تو وہ لو اس جگہ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں۔ کچھ نہیں ان کو اس کی خبر صرف اٹکل پر چل رہے ہیں اور اس کو قتل نہیں کیا بے شک بلکہ اس کو اٹھا لیا اﷲ نے اپنی طرف اور اﷲ ہے زبردست حکمت والا۔}
۱…	ان آیات کریمہ میں چار بار سیدنا مسیح علیہ السلام کے لئے ’’ہ‘‘ ضمیر لائی گئی ہے۔ ’’ما قتلوہ… ماصلبوہ… ما قتلوہ یقیناً‘‘ اور ’’بل رفعہ اﷲ‘‘ میں سیدنا مسیح نہ وہ قتل ہوئے نہ پھانسی دئیے گئے۔ نہ وہ یقینا قتل ہوئے۔ ظاہر ہے کہ قتل اور پھانسی کا محل جسم ہے کہ روح پر وارد نہیں ہوتا۔ آج تک نہ کوئی روح قتل ہوئی نہ پھانسی دی گئی۔ یہ فعل زندہ جسم پر وارد ہوتا ہے۔ تین بار ’’ہ‘‘ ضمیر جسم کی طرف ہے تو چوتھی بار ’’بل رفعہ اﷲ‘‘ میں بھی جسم کی طرف ’’ہ‘‘ ضمیر راجع ہے۔ جو مسیح (جسم) نہ قتل ہوا، نہ پھانسی، نہ یقینا قتل ہوا۔ بلکہ وہی جسم مسیح کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا۔
۲…	یہی لفظ بل کا تقاضا ہے۔
۳…	آج تک امت نے اس کا یہی ترجمہ کیاہے۔ اس آیت میں آج تک مسلمہ مجددین امت ومفسرین قرآن نے اس جگہ رفع سے مراد رفع درجات نہیں لیا۔
۴…	رفع کا استعمال درجات کے لئے ہوا۔ لیکن جہاں قرینہ تھا۔ قرینہ کا ہونا بذات خود دلیل ہے کہ رفع کے لفظ کا درجات کی بلندی کے معنوں میں استعمال مجازی معنی ہے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter