Deobandi Books

قادیانیوں سے فیصلہ کن مناظرہ ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

30 - 206
مرزاقادیانی نے بھی اسرار شریعت سے نقل کی۔ اسرار شریعت حضرت تھانویؒ کی کتاب اور مرزاقادیانی ملعون کی کتاب سے پہلے کی تصنیف کردہ ہے۔ دونوں نے اس کتاب سے اقتباس لئے۔ لیکن:
۱…	مرزاقادیانی نے اس کتاب اسرار شریعت سے اقتباس لئے، لیکن ان کا حوالہ نہ دیا۔
۲…	مرزاقادیانی نے ان اقتباس کو اپنی کتاب میں سمو کر اپنی تصنیف بتایا۔ یہ اس کی بددیانتی کا کھلا شاہکار تھا۔ لیکن اس کے مقابل پر حضرت تھانویؒ نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں واضح طور پر لکھ دیا کہ مجھے ایک کتاب (اسرار شریعت) ملی ہے۔ اس میں رطب ویابس سب کچھ ہے۔ اس سے بعض چیزیں میں اپنی کتاب میں نقل کر رہا ہوں۔ حضرت تھانویؒ کی کمال دیانت اور مرزاقادیانی کے کمال دجل کا پول حضرت علامہ خالد محمودصاحب نے کھولا تو قادیانی امت بوکھلا گئی۔ قادیانیوں کی کمال عیاری اور کمال کذب کو دیکھ کر دنیا حیران رہ گئی کہ قادیانی کس طرح ناواقف لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں   ؎
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا
	یہ مولوی فضل احمد بعد میں ترقی کر کے خود مدعیٔ الہام ومدعیٔ نبوت ہوگئے۔ چنانچہ خود کئی رسالے لکھے۔ جن میں اپنے الہام شائع کئے۔ قرآن مجید میں جہاں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہے کہ آپ (موسیٰ علیہ السلام) جاکر فرعون کو ڈرائیں۔ فضل احمد نے ان آیات کو اپنے اوپر نازل شدہ بتا کر اپنے آپ کو موسیٰ اور چنگا بنگیال کے رہائشیوں کو فرعون قرار دیا۔ ’’وغیرہ ذالک من الہفوات‘‘ مرزاقادیانی کی دیکھا دیکھی اور بھی قادیانیوں نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ ان میں ایک فضل احمد بھی تھا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ فضل احمد نے مرنے سے پہلے قادیانیت کو ترک کر دیا تھا۔ واﷲ اعلم!
	اس فضل احمد کے ذریعہ مرزاقادیانی کے زمانہ میں چنگا بنگیال میں قادیانیت پھیل گئی تھی۔ اب اسی فضل احمد کے خاندان کے بہت سارے گھرانے مسلمان ہو گئے ہیں۔ ان میں سے ایک پروفیسر محمد آصف بھی ہیں۔ پروفیسر صاحب کے پاس فضل احمد کی کتابیں ہیں۔ فقیر نے ان سے درخواست کی کہ عربی وفارسی، قادیانیت اور ردقادیانیت کی کتب مرکزی دفتر کی لائبریری کے لئے عنایت کر دیں۔ چنانچہ مناظرہ سے فراغت کے بعد لائبریری سے کتابیں لے کر مولانا مفتی محمود الحسن اسلام آباد لے گئے۔ وہاں سے دفتر ملتان انہوں نے بھجوانی تھیں۔ یہ ایک ضمنی بات تھی جو درمیان میں آگئی۔
روئیداد مناظرہ چنگا بنگیال
	عصر کی نماز پڑھ کر پروفیسر محمد آصف صاحب نے فقیر کو ساتھ لیا اور قادیانی راجہ سعید کے مکان پر گئے۔ آٹھ یا نو کل افراد تھے۔ جن میں مرزائی، مسلم موجود تھے۔ اکثریت پروفیسر صاحب کے رشتہ داروں کی تھی یا واقف کاروں کی۔ قادیانیوں نے گفتگو کے لئے سعید الحسن قادیانی مربی کو تیار کیا ہوا تھا۔ بہرحال پہنچتے ہی مختصر تعارف کے بعد گفتگو شروع ہوئی۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter