Deobandi Books

قادیانیوں سے فیصلہ کن مناظرہ ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

29 - 206
	عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مبلغین حضرات کی سہ ماہی میٹنگ میں ۲۶؍شوال سے ۲۶؍ذیقعد ۱۴۲۴ھ تک فقیر (مولانا اﷲ وسایا) کے پروگرام شیخوپورہ، لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، راولپنڈی، اسلام آباد، چکوال، میانوالی، لیہ اور بھکر کے اضلاع کے لئے طے ہوئے۔ گجرات سے فراغت کے بعد مجھے راولپنڈی جانا تھا۔ درمیان میں جمعرات کا دن ۱۵؍ذیقعدہ ۱۴۲۴ھ مطابق ۸؍جنوری ۲۰۰۴ء سفر کے لئے فارغ رکھا تھا۔ چنگا بنگیال کے محترم جناب پروفیسر محمد آصف کو خط لکھ دیا کہ اس دن آپ کی لائبریری دیکھنے کے لئے حاضر ہونا ہے۔
	چنانچہ چنگا بنگیال جانے کے لئے گوجر خان صبح دس گیارہ بجے جمعرات کو حاضر ہوگیا۔ محترم پروفیسر صاحب نے بتایا کہ چنگا بنگیال کے قادیانیوں سے میری رشتہ داری ہے۔ ان سے گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ آپ کا خط ملا تو آج ان سے قادیانیت پر گفتگو رکھی ہے۔ قادیانی اور مسلمان چند رشتہ دار بیٹھک میں جمع ہوں گے۔ قادیانی مربی آئے گا۔ آپ گفتگو کریں گے۔ لیکن ہم نے آپ کانام نہیں بتانا۔ صرف یہ کہہ کر تعارف کرائیں گے کہ ہمارے دوست ہیں اور گفتگو شروع ہو جائے گی۔ فقیر نے عرض کیا کہ میرا آنا اختیاری تھا۔ آپ سے وعدہ نہ تھا۔ کوئی ضروری کام ہو جاتا تو سفر کینسل بھی ہوسکتا تھا۔ آپ نے گفتگو رکھی تو مجھے اطلاع ہونی چاہئے تھی۔ تاکہ سفر یقینی ہو جاتا۔ ورنہ حاضر نہ ہونے کی صورت میں آپ کو پریشانی ہوتی۔ خیرگفتگو کس عنوان پر ہوگی؟ انہوں نے بتایا کہ ہم مرزاقادیانی کے حوالہ سے گفتگو کریں گے۔ پروفیسر صاحب نے فرمایا کہ میری گفتگو چل رہی ہے۔ میں ہی گفتگو کا آغاز کروں گا۔ جہاں ضروری ہوا آپ شامل گفتگو ہو جائیں گے۔ طے ہوا کہ ظہر کے بعد گوجر خان سے چلیں گے۔ چنانچہ پروفیسر صاحب قادیانیوں کو گفتگو کا پابند کرنے کے لئے چنگا بنگیال چلے گئے۔ ہم حسب وعدہ ظہر کے بعد روزانہ ہوئے۔ لیکن آگے سڑک پر گیس والے کھدائی کر رہے تھے۔ سڑک بند تھی۔ ٹریفک بلاک تھی۔ کچھ پیدل چلنا پڑا۔ ہمیں وہاں پہنچتے پہنچتے عصر ہوگئی۔ عصر پڑھ کر قادیانیوں کے مکان پر حاضر ہوئے اور گفتگو ہوئی۔
فضل احمد:  چنگابنگیال کے ایک قادیانی فضل احمد تھے۔ اچھے ذی استعداد عالم تھے۔ طبیعت آزاد پائی تھی۔ ایک کتاب ’’اسرار شریعت‘‘ کئی حصوں میں لکھی۔ مرزاقادیانی کا تعارف سنا، قادیان گئے اور قادیانیت کا طوق پہن لیا۔ الفضل قادیان کے کچھ عرصہ ایڈیٹر بھی رہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ الفضل قادیان کا نام بھی ان کی مناسبت سے الفضل رکھاگیا۔ اسرار شریعت میں انہوں نے اسرار وحکمتیں بیان کی ہیں کہ نمازیں پانچ کیوں ہیں؟ دن کو اتنی، رات کو اتنی، فرض اتنے، سنتیں اتنی، یہ کیوں؟ وغیرہ وغیرہ۔ مرزاقادیانی نے اس اسرار شریعت سے صفحات کے صفحات اپنی کتابوں، اسلامی اصول کی فلاسفی، برکات الدعا، کشتی نوح، نسیم دعوت اور آریہ دھرم میں ان کا نام ذکر کئے بغیر نقل کر کے اسے اپنی تصنیف ظاہر کیا۔
	ایک بار قادیانیوں نے ’’کمالات اشرفیہ‘‘ نامی کتابچہ شائع کیا۔ مرزاقادیانی کی کتاب اور حضرت تھانویؒ کی کتاب ’’المصالح العقلیہ! یعنی احکام اسلام عقل کی نظر میں‘‘ کے صفحات مقابلہ پر شائع کر کے اعلان کیا کہ مرزاقادیانی کی کتاب پہلے کی شائع شدہ ہے۔ جب کہ حضرت تھانویؒ کی کتاب بعد کی ہے۔ ثابت ہوا کہ حضرت تھانویؒ نے مرزاقادیانی کی کتابوں کے صفحات کے صفحات لے کر اپنی کتاب میں شائع کئے ہیں۔ اس انکشاف پر کہرام قائم ہوگیا۔ یہ قادیانی دجل کا شاہکار تھا کہ حضرت تھانویؒ کو مرزاقادیانی کی کتابوں سے سرقہ کرنے والا ظاہر کیاگیا۔ اﷲتعالیٰ نے کرم کیا کہ ہمارے مخدوم حضرت مولانا علامہ خالد محمود صاحب نے اسرار شریعت پڑھی ہوئی تھی۔ انہیں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی دفتر سے کتاب اسرار شریعت مل گئی۔ جب انہوں نے اس کتاب اور حضرت تھانویؒ کی کتاب کا تقابل کیا کہ فضل احمد چنگا بنگیال کے جب مسلمان تھے، یہ کتاب اسرار شریعت لکھی تھی۔ حضرت تھانویؒ نے اپنی کتاب میں اس سے عبارات نقل کیں اور 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter