Deobandi Books

ختم نبوت کے متفرق رسائل ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

43 - 132
	’’ولمثل ھذاذھب ابو المعالی رحمۃ اللہ فی اجو بتہ لا بی محمد عبدالحق و کان سالم عن المسالۃ فاعتذر لہ بان الغلط فیھا یصعب لان ادخال کافرفی الملۃ واخراج مسلم عنہا عظیم فی الدین۰ شفا ج ۲ص۲۴۱ فصل فی تحقیق القول فی اکفار المتاؤلین۰‘‘
	’’ابو المعالی نے جو محمد عبدالحق کے سوالات کے جواب لکھے ہیں۔ ان میں ان کا بھی یہی مذہب ثابت ہے۔ کیو نکہ ان سے ایسا ہی سوال کیا گیا تھا جس کے جواب میں انہوں نے عذر کر دیا کہ اس بارہ میں غلطی سخت مصیبت کی چیز ہے۔ کیونکہ کسی کافر کو مذہب اسلام میں داخل سمجھنا یا مسلمان کو اس سے خارج سمجھنا دین میں بڑے خطرہ کی چیز ہے۔‘‘
	اسی لئے ایک جانب تو یہ احتیاط ضروری ہے کہ اگر کسی شخص کا کوئی مبہم کلام سامنے آئے جو مختلف وجوہ کو محتمل ہو اور سب وجوہ سے عقیدہ کفر یہ قائل کا ظاہر ہوتا ہو۔لیکن صرف ایک وجہ ایسی بھی ہو جس سے اصطلاحی معنی اور صحیح مطلب بن سکے ۔گو وہ وجہ ضعیف ہی ہو۔تو مفتی وقاضی کا فرض ہے کہ اس وجہ کو اختیار کرکے اس شخص کو مسلمان کہے۔ (کما صرح بہ فی الشفاء فی ہذہ الصفحۃوبمثلہ صرح فی البحر وجامع الفصولین وغیرہ)
	اور دوسری طرف یہ لازم ہے کہ جس شخص میں کوئی وجہ کفر کی یقیناثابت ہوجائے۔ اس کی تکفیر میں ہر گز تاخیر نہ کرے اور نہ اس کے متبعین کو کافر کہنے میں دریغ کرے۔ جیسا کہ علماء امت کی تصریحات محررہ بالا سے بخوبی واضح ہوچکا۔واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم !
تتمہ مسئلہ از امداد الفتاویٰ جلدسادس 
	یہ کل بیان اس صورت میں تھا جب کہ کسی شخص یا جماعت کے متعلق عقیدہ کفر یہ رکھنا یا اقوال کفر یہ کا کہنا متیقن طریق سے ثابت ہو جائے۔ لیکن اگر خود اسی میں کسی موقع پر شک ہو جائے کہ یہ شخص اس عقیدہ کا معتقد یا اس قول کا قائل ہے یا نہیں۔ تو اس کے لئے احوط و اسلم و ہ طریق ہے جو امداد الفتاویٰ میں درج ہے۔جس کو بعینہ ذیل میں بطور تتمہ نقل کیا جاتا ہے ۔
	اگر کسی خاص شخص کے متعلق یا کسی خاص جماعت کے متعلق حکم بالکفر میں ترددہو خواہ ترددکے اسباب علماء کا اختلاف ہو خواہ قرائن کا تعارض ہو یا اصول کا غموض‘ تو اسلم یہ ہے کہ نہ کفر کا حکم کیاجائے نہ اسلام کا حکم۔ اول میں تو خود اس کے معاملات کے اعتبار سے بے احتیاطی ہے اور حکم ثانی میں دوسرے مسلمانوں کے معاملات کے اعتبار سے بے احتیاطی ہے۔ پس احکام میں دونوں احتیاطوں کو جمع کیا جائے گا ۔یعنی اس سے نہ عقد منا کحت کی اجازت دیں گے نہ اس کی اقتدا ء کریں گے نہ اس کا ذبیحہ کھائیں گے۔ اور نہ اس پر سیاست کافر انہ جاری کریں گے۔اگر تحقیق کی قدرت ہو اس کے عقائد کی تفتیش کریں گے اور اس تفتیش کے بعد جو ثابت ہو ویسے ہی احکام جاری کریں گے۔ اور اگر تحقیق کی قدرت نہ ہوتو سکوت کریں گے اور اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپر دکریں گے۔ اس کی نظیر وہ حکم ہے جو اہل کتاب کی مشتبہہ روایات کی متعلق حدیث میں واردہے:
	’’لا تصدقوا اھل الکتاب ولا تکذبو ھم وقولوااٰمنا باللہ وما انزل الینا الایۃ البخاری ج۲ص۱۰۹۴ باب لاتسئلوا ھل الکتاب‘‘
	’’نہ اہل کتاب کی تصدیق کرونہ تکذیب بلکہ یوں کہو کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اس وحی پر جو ہم پر نازل ہوئی ۔‘‘
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter