Deobandi Books

ختم نبوت کے متفرق رسائل ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

42 - 132
	تنبیہ:کسی مسلمان کو کافر کہنے کے معاملہ میں آج کل ایک عجیب افراط و تفریط رونما ہے۔ ایک جماعت ہے کہ جس نے مشغلہ یہی اختیار کر لیا ہے کہ ادنیٰ معاملات میں مسلمانوں پر تکفیر کا حکم لگا دیتے ہیں اورجہاں ذراسی کوئی خلاف شرع حرکت کسی سے دیکھتے ہیں تو اسلام سے خارج کہنے لگتے ہیں۔اوردوسری طرف نو تعلیم یافتہ آزاد خیال جماعت ہے جس کے نزدیک کوئی قول وفعل خواہ کتنا ہی شدید ا ور عقائد اسلامیہ کا صریح مقابل ہو کفر کہلانے کا مستحق نہیں۔وہ ہر مدعی اسلام کو مسلمان کہنا فرض سمجھتے ہیں۔ اگرچہ اس کا کوئی عقیدہ اور عمل اسلام کے موافق نہ ہو اور ضروریات دین کا انکار کرتا ہو۔اور جس طرح کسی مسلمان کو کافر کہنا ایک سخت پر خطر معاملہ ہے اسی طرح کافر کو مسلمان کہنا بھی اس سے کم نہیں۔ کیونکہ حدودکفرواسلام میں التباس بہردوصورت لازم آتا ہے۔ اس لئے علماء امت نے ہمیشہ ان دونوں معاملوں میں نہایت احتیاط سے کا م لیا ہے۔ امر اول کے متعلق تو یہاں تک تصریحات ہیں کہ اگر کسی شخص سے کوئی کام خلاف شرع صادر ہوجائے اور اس کلام کی مراد میں محاورات کے اعتبارسے چند احتمال ہوں اور سب احتمالات میں یہ کلام ایک کلمہ کفر بنتا ہو۔ لیکن صرف ایک احتمال ضعیف ایسا بھی ہو کہ اگر اس کلام کو اس پر حمل کیا جائے تو معنی کفر نہیں رہتے۔ بلکہ عقائد حقہ کے مطابق ہو جاتے ہیں تو  مفتی پر واجب ہے کہ اسی احتمال ضعیف کو اختیار کرکے اس کے مسلمان ہونے کا فتویٰ دے۔ جب تک کہ خودوہ متکلم اس کی تصریح نہ کرے کہ میری مراد یہ معنی نہیں ۔اسی طرح اگر کوئی مسلمان کسی ایسے عقیدہ کا قائل ہو جاوے جو آئمہ اسلام میں سے اکثر لوگوں کے نزدیک کفر ہو۔ لیکن بعض آئمہ اس کے کفر ہونے کے قائل نہ ہوں تو اس کفر مختلف فیہ سے بھی مسلمان پر کفر کا حکم کرنا جائز نہیں۔ (صرح بہ فی البحر الرائق باب المرتدین ج۵)ومثلہ فی ردالمحتاروجامع الفصولین من باب کلمات الکفر!
	اور امر دوم کے متعلق بھی صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒ کے تعامل نے یہ بات متعین کردی کہ اس میں تہاون و تکاسل کرنا اصول اسلام کو نقصان پہنچا نا ہے ۔آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جو لوگ مرتد ہوئے تھے۔ ان کا ارتداد قسم دوم ہی کا ارتداد تھا۔صریح طور پر تبدیل مذہب (عموماً) نہ تھا ۔لیکن صدیق اکبرؓ نے ان پر جہاد کرنے کو اتنا زیادہ اہم سمجھا کہ نزاکت وقت اور اپنے ضعف کا بھی خیال نہ فرمایا ۔اسی طرح مسیلمہ کذاب مدعی نبوت اور اس کے ماننے والوں پر جہاد کیا جس میں جمہور صحابہؓ  شریک تھے۔ جن کے اجماع سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ جو شخص ختم نبوت کا انکارکرے یا نبوت کا دعویٰ کرے و ہ مرتد ہے۔ اگرچہ تمام ارکان اسلام کا پابند او ر زاہد وعابد ہو۔
	ضابطہ تکفیر : اس لئے تکفیر مسلم کے بارہ میں ضابطہ شرعیہ یہ ہوگیا کہ جب تک کسی شخص کے کلام میں تاویل صحیح کی گنجائش ہو اور اس کے خلاف کی تصریح متکلم کے کلام میں نہ ہو۔یا اس عقیدہ کے کفر ہونے میں ادنیٰ سے ادنیٰ اختلاف آئمہ اجتہاد میں واقع ہو۔اس وقت تک اس کے کہنے والے کو کافر نہ کہا جائے ۔لیکن اگر کوئی شخص ضروریات دین میں سے کسی چیز کا انکار کرے یا کوئی ایسی ہی تاویل و تحریف کرے جو اس کے اجماعی معانی کے خلاف معنی پیدا کردے تو اس شخص کے کفر میں کوئی تامل نہ کیا جا ئے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم!
	تنبیہ ضروری :مسئلہ زیر بحث میں اس بات کا ہر وقت خیال رکھنا ضروری ہے کہ یہ مسئلہ نہایت نازک ہے ۔اس میں بیباکی اور جلد بازی سے کام لینا سخت خطر ناک ہے ۔مسئلہ کی دونوں جانب نہایت احتیاط کی مقتضی ہیں۔ کیونکہ جس طرح کسی مسلمان کو کافر کہنا و بال عظیم ہے اور حسب تصریح حدیث اس کہنے والے کے کفرکا اندیشہ قوی ہے۔اسی طرح کسی کافرکو مسلمان کہنا یا سمجھنا بھی اس سے کم نہیں۔ جیسا کہ عبارت شفاء سے منقول ہے۔اور شفاء میں مسئلہ کی نزاکت کو بایں الفاظ بیان فرمایا ہے:
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter