Deobandi Books

ختم نبوت کے متفرق رسائل ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

40 - 132
	جس کا صحیح مطلب تو یہ ہے کہ کسی گناہ میں مبتلا ہوجانے کی وجہ سے کسی مسلمان کو کافر مت کہو۔ خواہ کتنا ہی بڑاگناہ ہو(بشر طیکہ کفر و شرک نہ ہو)کیونکہ گناہ سے مراد اس جگہ پر وہی گناہ ہے جو حدکفر تک نہ پہنچا ہو۔
	’’کمافی کتاب الایمان لابن تیمیہ حیث قال ونحن اذا قلنا اھل السنۃ متفقون علی ان لایکفر بالذنب فانما نرید بہ المعاصی کا لزنا والشرب انتھٰی اوضحہ القونوی فی شرح العقیدۃ الطحاویۃ۰‘‘
	’’جیسا کہ حافظ ابن تیمیہ کی کتاب الایمان میں ہے کہ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ اہل سنت و الجماعت اس پر متفق ہیں کہ اہل قبلہ میں سے کسی شخص کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہ کہیں تو اس جگہ گناہ سے ہماری مراد معاصی مثل زناوشراب خوری وغیرہ ہوتے ہیں اور علامہ قونوی نے عقیدہ طحاوی کی شرح میں اس مضمون کو خوب واضح کر دیا ہے۔‘‘
	ورنہ پھر اس عبارت کے کو ئی معنی نہیںرہتے۔ اور لفظ بذنب کے اضافہ کی (جیسا کہ فقہ اکبر اور شرح تحریر کے حوالہ سے اوپر نقل ہو اہے )کوئی وجہ باقی نہیں رہتی ۔اب شبہات کی ابتداء یہاں سے ہوئی کہ بعض علماء کی عبارتوں میں اختصار کے مواقع میں بذنب کا لفظ بوجہ معروف ومشہور ہونے کے چھوڑدیاگیا ۔اور مسئلہ کا عنوان عدم تکفیر اہل القبلہ ہوگیا۔حدیث و فقہ سے نا آشنا اور غرض متکلم سے نا واقف لوگ یہاں سے یہ سمجھ بیٹھے کہ جو شخص قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ لے اس کو کافر کہنا جائز نہیں۔ خواہ کتنے ہی عقائد کفر یہ رکھتا ہو ۔اور اقوال کفر یہ بکتا پھرے۔اور یہ بھی خیال نہ کیا کہ اگر یہی لفظ پرستی ہے تو اہل قبلہ کے لفظوں سے تو یہ بھی نہیں نکلتا کہ قبلہ کی طرف منہ کرکے نمار پڑھے۔ بلکہ ان لفظوں کا مفہوم تو اس سے زائد نہیںکہ صرف قبلہ کی طرف منہ کرلے خواہ نماز بھی پڑھے یا نہ پڑھے ۔اگر یہ معنی مراد لئے جائیں تو پھر دنیا میں کوئی شخص کا فرہی نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ کبھی نہ کبھی ہر شخص کا منہ قبلہ کی طرف ہو ہی جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ لفظ اہل قبلہ کی مراد تمام ا وقات واحوال کا استیعاب با ستقبال قبلہ نہیں۔
	خوب سمجھ لیجئے کہ لفظ اہل قبلہ ایک شرعی اصطلاح ہے جس کے معنی اہل اسلام کے ہیں اور اسلام وہی ہے جس میں کوئی بات کفر کی نہ ہو۔لہٰذا یہ لفظ صرف ان لوگوں کیلئے بولا جاتا ہے جو تمام ضروریات دین کو تسلیم کریں۔اور آنحضرتﷺ کے تمام احکام پر (بشرط ثبوت) ایمان لائیں۔نہ ہر اس شخص کیلئے جو قبلہ کی طرف منہ کرلے۔جیسے دنیا کی موجودہ عدالتوں میں اہل کار کالفظ صرف ان لوگوں کیلئے بولا جاتا ہے جو با ضابطہ ملازم اور قوانین ملازمت کا پابندہو۔اس کے مفہوم لغوی کے موافق ہر کام والے آدمی کو اہل کارنہیں کہاجاتا۔اور یہ جو کچھ لکھا گیا علم فقہ وعقائد کی کتابیں تقریباً تمام اس پر شاہدہیں جن میں سے بعض عبارات درج ذیل ہیں:۔
	حضرت ملا علی قاریؒشرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں:
	’’اعلم ان المراد باھل القبلۃ الذین اتفقواعلی ماھومن ضروریات الدین کحدوث العالم وحشرالاجساد وعلم اللہ تعالیٰ بالکلیات والجزئیات ومااشبہ ذلک من المسائل المھمات فمن واظب طول عمرہ علی الطاعات والعبادات مع اعتقادقدم العالم ونفی الحشر اونفی علم سبحانہ وتعالیٰ بالجزئیات لایکون من اھل القبلۃ وان المراد بعدم تکفیر احد من اھل القبلۃ عنداھل السنۃ انہ لایکفر احد ما لم یوجد شئی من امارات الکفر وعلاماتہ ولم یصدرعنہ شئی من موجباتہ۰شرح فقہ اکبر ص ۱۸۹‘‘
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter