Deobandi Books

ختم نبوت کے متفرق رسائل ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

4 - 132
انکار‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ تھا۔ مگر ہم سمجھتے تھے کہ یہ سب مرزا قادیانی کے دم تک ہیں۔ کیونکہ: ’’وہ اپنے آپ کو خدا کا نبی کہتے تھے اور اس کا مستحق سمجھتے تھے کہ حدیث نبوی کے ذخیرہ میں سے جس حصہ کو چاہیں لیں اور جس کو چاہیں (نعوذباﷲ)ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں۔‘‘ جس کا خود مرزا قادیانی نے (اربعین نمبر۳ ص۱۵‘ خزائن ج۱۷ص۴۰۱ ملخص‘ وغیرہ میں) کھلے بندوں اعلان کیا ہے۔ لیکن آج نعمت اﷲ خان مرزائی کے قتل نے یہ بات دکھلادی کہ:
ایں خانہ تمام آفتاب است
	مرزا قادیانی کے مرنے سے بھی نصوص شرعیہ کی تحریف اور بدیہی الثبوت مسائل اسلامیہ کے انکار کا دروازہ بند نہیں ہوا۔ بلکہ ان کا روحانی فیض آج تک اپنے لوگوں میں کام کررہا ہے۔ جس کی ایک نظیر یہ ہے کہ شریعت اسلام کا کھلا ہوا فیصلہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہونے کی سزا قتل ہے۔ آیات قرآنیہ کے بعد احادیث نبویہ کا ایک بڑا دفتر اس حکم کا صاف طور سے اعلان کررہا ہے۔ جن میں سے تقریباً تیس حدیثیں ہمارے زیر نظر ہیں۔ جن کو اگر ضرورت سمجھی گئی تو کسی وقت پیش کیا جائے گا۔ اس کے بعد اگر خلافت اسلامیہ کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو چاروں خلفائے راشدینث سے لے کر بعد کے تمام خلفاء کا متواتر عمل بتلارہا ہے کہ یہ مسئلہ ان بدیہات اسلامیہ سے ہے کہ جس کا انکار کسی مسلمان سے متصور نہیں۔بایں ہمہ آج جبکہ دولت افغانستان نے اس شرعی اور قطعی فیصلہ کے ماتحت نعمت اﷲ خان مرزائی کو قتل کردیا تو فرقہ مرزائیہ کی دونوں پارٹیاں قادیانی اور لاہوری اور بالخصوص اس کا آرگن پیغام صلح سرے سے اس حکم کے انکار پر تل گئے اور دولت افغانستان پر طرح طرح کے بیہودہ عیب لگانے اور ان کے عین شرعی فیصلہ کو وحشیانہ حکم ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا۔ہمیں اس دیدہ دلیری معاصر سے سخت تعجب ہوا کہ وہ ملت اسلامیہ کو چیلنج دیتا ہے کہ: ’’ازروئے شریعت اسلامیہ مرتد کی سزا قتل ہونا ثابت کریں۔‘‘ حالانکہ یہ مسئلہ اسلام میں اس قدر بدیہی الثبوت ہے کہ ہم کسی مسلمان پر بلکہ خود ایڈیٹر پیغام صلح پر یہ بدگمانی نہیں کرسکتے کہ وہ اس قدر ناواقف اور احکام شرعیہ سے غافل ہوں گے کہ ان کو قتل مرتد کی کوئی دلیل ادّلہ شرعیہ میں نہیں ملی۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ قرآن کریم کے دلائل اور اس کے محیّر العقول لطائف ان کی پرواز سے بالا تر ہونے کی وجہ سے ان کی نظر سے اوجھل رہے ہوں۔ لیکن یہ کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ احادیث کا اتنا بڑا دفتر ایک ایسے شخص پر بالکل مخفی رہے جو منہ بھر بھر کر علم کی ڈینگ مارتا ہے اور علمائے اسلام کے منہ آتا ہے؟۔ ہاں میں ان کو اس میں بھی معذور سمجھتا کہ یہ سب حدیثیں غیر درسی کتابوں میں ہوتیں۔ لیکن حیرت تو یہ ہے کہ ان میں سے دس بارہ حدیثیں وہ ہیں جو حدیث کی درسی کتابوں (صحاح) پر ایک سرسری نظر ڈالنے والے کے بلاتکلف سامنے آجاتی ہیں۔ جن سے معمولی درجہ کے طالب علم ناواقف نہیں رہ سکتے۔ مگر ایڈیٹر پیغام صلح ہیں کہ نہایت دلیری کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ سنت نبوی میں قتل مرتد کا کوئی اسوہ نہیں ملتا۔ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ کلام غیظ وغضب کی بدحواسی میں ان کے قلم سے نکل گیا ہے۔ جس پر وہ افاقہ کے بعد قرآن وحدیث کو دیکھ کر پشیمان ہوئے ہوں گے۔ یا واقع میں ان کی تحصیل اور مبلغ علم یہی ہے کہ جس حکم سے قرآن وحدیث اور تعامل سلف کے دفتر بھرے ہوئے ہوں ان کا دماغ اس کے علم سے ایسا کورا ہے کہ علمائے اسلام کو اس کے اثبات کا اس بیہودہ خیال پر چیلنج دے رہے ہیں کہ وہ ثابت نہ کرسکیں گے۔ اور اگر ایسا ہے تو ہم ایڈیٹر صاحب کو اس معاملہ میں بھی معذور سمجھیں گے۔ کیونکہ ان کو مرزا قادیانی ایک ایسے کام میں لگاگئے ہیں جس سے وہ کسی وقت فارغ نہیں ہوسکتے۔ مرزا قادیانی کے متہافت اور متعارض اقوال کی گتھیوں کا سلجھانا ہی عمر گنوادینے کے لئے کافی ہے۔ ان کو کہاں فرصت کہ وہ خاتم الانبیائﷺ کے دین کی طرف متوجہ ہوں اور آپﷺ کی احادیث کو پڑھیں اور سمجھیں۔ اگرچہ مرزائی فرقہ کی حالت کا 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter