Deobandi Books

ختم نبوت کے متفرق رسائل ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

37 - 132
	اورقطعی الدلالۃ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو عبادت قرآن مجید میں اس حکم کے متعلق واقع ہوئی ہے یا حدیث متواترہ سے ثابت ہوئی ہے وہ اپنے مفہوم مراد کو صاف صاف ظاہر کرتی ہو۔ اس میں کسی قسم کی الجھن نہ ہو کہ جس میں کسی کی تاویل چل سکے ۔
	پھر اس قسم کے احکام قطعیہ اگر مسلمانوں کے ہر طبقہ خاص وعام میں اس طرح مشہور و معروف ہو جائیں کہ ان کا حاصل کرنا کسی خاص اہتمام اور تعلیم و تعلم پر موقوف نہ رہے۔ بلکہ عام طور پر مسلمانوں کو وراثتاً وہ باتیں معلوم ہو جاتی ہوں۔ جیسے نماز ‘روزہ ‘حج ‘زکوۃ کا فرض ہونا‘ چوری وشراب خوری کا گناہ ہو نا‘آنحضرتﷺ کا خاتم الانبیا ہونا وغیرہ تو ایسے احکام قطعیہ کو ضروریات دین کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔اور جو اس درجہ مشہور نہ ہوں وہ صرف قطعیات کہلاتے ہیں۔ ضروریات نہیں۔
	اور ضروریات او ر قطعیات کے حکم میں یہ فرق ہے کہ ضروریات دین کا انکار با جماع امت مطلقاً کفرہے۔ ناواقفیت و جہالت کو اس میں عذر نہ قرار دیا جائے گا۔ اور نہ کسی قسم کی تاویل سنی جائے گی۔
	اور قطعیات محضہ جو شہرت میں اس درجہ کو نہیں پہنچتے تو حنفیہ کے نزدیک اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر کوئی عامی آدمی بوجہ نا واقفیت وجہالت کے ان کا انکار کر بیٹھے تو ابھی اس کے کفر وارتداد کا حکم نہ کیاجائے گا۔ بلکہ پہلے اس کو تبلیغ کی جائے گی کہ یہ حکم اسلام کے قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت احکام میں سے ہے۔ اس کا انکار کفر ہے ۔اس کے بعد بھی اگر وہ اپنے انکار پر قائم رہے تب کفر کا حکم کیا جائے گا۔
	’’کما فی المسایرۃ والمسامرۃ لابن الھمام و لفظہ واماماثبت قطعاً ولم یبلغ حد الضرورۃ کا ستحقاق بنت الابن السدس مع البنت الصلبیۃ با جماع المسلمین فظاھر کلام الحنفیۃ الا کفار بجہدہ بانھم لم یشتر طوافی الاکفار سوی القطع فی الثبوت (الی قولہ)ویجب حملہ علی مااذاعلم المنکر ثبوتہ قطعاً ۰مسامرہ /۱۴۹‘‘
	 ’’اور جو حکم قطعی الثبوت تو ہو مگر ضرورت کی حد کو نہ پہنچا ہو۔ جیسے (میراث میں) اگر پوتی اور بیٹی حقیقی جمع ہوںتو پوتی کو چھٹا حصہ ملنے کا حکم اجماع امت سے ثابت ہے۔سو ظاہر کلام حنفیہ کا یہ ہے کہ اس کے انکار کی وجہ سے کفر کا حکم کیا جائے۔ کیونکہ انہوں نے قطعی الثبوت ہونے کے سوا اور کوئی شرط نہیں لگائی(الی قولہ)مگر واجب ہے کہ حنفیہ کے اس کلام کو اس صورت میں محمول کیا جائے کہ جب منکر کو اس کا علم ہو کہ یہ حکم قطعی الثبوت ہے۔‘‘
	خلاصہ کلام یہ ہے کہ جس طرح کفر و ارتداد کی ایک قسم تبدیل مذہب ہے اسی طرح دوسری قسم یہ بھی ہے کہ ضروریات دین اور قطعیات اسلام میں سے کسی چیز کا انکار کردیا جائے یا ضروریات دین میں کوئی ایسی تاویل کی جائے جس سے ان کے معروف معانی کے خلاف معنی پیدا ہو جائیں اور غرض معروف بدل جا ئے۔ اور ارتداد کی اس قسم دوم کا نام قرآن کی اصطلاح میں الحاد ہے:
	’’قال تعالیٰ ان الذین یلحدون فی آیاتنا لایخفون علینا۰حم السجدہ:۴۰‘‘ ’’جو لوگ ہماری آیات میں الحاد کرتے ہیں وہ ہم سے چھپ نہیں سکتے ۔‘‘
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter