Deobandi Books

ختم نبوت کے متفرق رسائل ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

13 - 132
سامنے ایک لاینحل معمے کی شکل میں پیش کیا ہے اور ایسے متناقض اور متضاد عوے کئے کہ خود ان کی امت بھی مصیبت میں ہے کہ ہم اپنے گرو کو کیا کہیں۔ کوئی تو ان کو مستقل صاحب شریعت نبی کہتا ہے۔ کوئی غیر تشریعی نبی مانتا ہے۔ اور کسی نے ان کی خاطر ایک نئی قسم کا نبی لغوی تراشا ہے اور ان کو مسیح موعود‘ مہدی‘ اور لغوی یا مجازی نبی کہتاہے۔
	اور یہ حقیقت ہے کہ مرزا قادیانی کا وجود ایک ایسی چیستان ہے جس کا حل نہیں۔ انہوں نے اپنی تصانیف میں جو کچھ اپنے متعلق لکھا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ متعین کرنا بھی دشوار ہے کہ مرزا قادیانی انسان ہیں یا اینٹ پتھر۔ مرد ہیں یا عورت۔ مسلمان ہیں یا ہندو۔ مہدی ہیں یا حارث۔ ولی ہیں یا نبی۔ فرشتے ہیںیا دیو۔ جیسا کہ دعاوی مندرجہ رسالہ ہذا سے معلوم ہوتاہے۔
	نوٹ: اگر کوئی مرزائی یہ ثابت کردے کہ یہ عبارت مرزا قادیانی کی نہیں توفی عبارت دس روپیہ انعام دیا جائے گا۔
مرزائیوں کے تمام فرقوں کو کھلا چیلنج؟
	دعویٰ کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ مرزائی امت کے تینوں فرقے مل کر قیامت تک یہ بھی متعین نہیں کرسکتے کہ مرزا قادیانی کا دعویٰ کیا ہے اور وہ کون ہے اور کیا ہے؟۔ دنیا سے اپنے آپ کو کیا کہلوانا چاہتا ہے؟۔ لیکن جب ہم ان کی تصانیف کو غور سے پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ یہ دعاوی میں اختلاط واختلاف بھی ان کی ایک گہری چال ہے۔ وہ اصل میں خدائی کا دعویٰ کرنا چاہتا تھا۔ لیکن سمجھا کہ قوم اس کو تسلیم نہ کرے گی۔ اس لئے تدریج سے کام لیا۔ پہلے خادم اسلام مبلغ بنے۔ پھر مجدد ہوئے۔ پھر مہدی ہوگئے۔ اور جب دیکھا کہ قوم میں ایسے بیوقوفوں کی کمی نہیں جو ان کے ہر دعوے کو مان لیں۔ تو پھر کھلے بندوں‘ نبی‘ رسول‘ خاتم الانبیاء وغیرہ سبھی کچھ ہوگئے۔ اور ہونہار مرد نے اپنے آخری دعوے خدائی کی بھی تمہید ڈال دی تھی۔ جس کی تصدیق عبارات مذکورہ ۲۶ تا۳۰سے بخوبی ہوتی ہے۔ لیکن قسمت سے عمر نے وفا نہ کی۔ ورنہ مرزائی دنیا کا خدا بھی نئی روشنی اور نئے فیشن کا بن گیا ہوتا۔ خود مرزا قادیانی کی عبارات ذیل میں اس تدریجی ترقی اور اس کے سبب پر ہمارے دعوے کے گواہ ہیں۔ مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ:
	’’ میری دعوت کے مشکلات میں سے ایک رسالت ایک وحی الٰہی ایک مسیح موعود کا دعویٰ تھا۔ ‘‘				    (براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۵۳‘ خزائن ج۲۱ص۶۸)
	پھر کہتے ہیں کہ علاوہ اس کے اور مشکلات یہ معلوم ہوتے ہیں کہ بعض امور اس دعوت میں ایسے تھے کہ ہرگز امید نہ تھی کہ قوم ان کو قبول کرسکے۔ اور قوم پر تو اس قدر بھی امید نہ تھی کہ وہ اس امر کو بھی تسلیم کرسکیں کہ بعد زمانہ نبوت وحی غیر تشریعی کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا اور قیامت تک باقی ہے۔ نیز حقیقت الوحی کی عبارت ذیل بھی خود اس تدریجی ترقی کی شاہد ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مرزا قادیانی ختم نبوت کے قائل تھے اور کسی نبی کا پیدا ہونا جائز نہ رکھتے تھے۔ اور اپنے آپ کو نبی نہیں کہتے تھے۔ بعد میں ارزانی غلہ نے نبی بنادیا۔لکھتے ہیں:
	’’اسی طرح اوائل میں میرا یہی عقیدہ تھا کہ مجھ کو مسیح ابن مریم سے کیا نسبت ہے۔ وہ نبی تھے اور خدا کے بزرگ مقربین میں سے اور اگر کوئی امر میری فضیلت کے متعلق ظاہر ہوتا تھا تو میں اس کو جزوی فضیلت قرار دیتا تھا مگر بعد میں جو خدائے تعالیٰ کی وحی بارش کی طرح 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter