Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

96 - 196
	حضرت مولانا مفتی احمد الرحمنؒ کے وصال کے بعد جامعۃ العلوم الاسلامیہ کراچی کے مہتمم حضرت مولانا حبیب اللہ مختار شہیدؒ مقرر ہوئے۔ آپ کے زمانہ میں جامعہ میں کام کی وسعت کے پیش نظر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ نے اپنا دفتر بنوری ٹائون سے جامع مسجد باب الرحمت میں منتقل کرلیا۔ آپ کے تشریف لانے سے دفتر مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی کے درودیوار کے مقدر جاگ گئے۔ دارالافتاء قائم ہوگیا۔ خانقاہی نظام چل نکلا۔ دن بھر عوام کا رش رہنے لگا۔ کتب چھپ رہی ہیں۔ رسائل کی کمپوزنگ ہورہی ہے۔ ڈاک کی ترسیل و وصولی کا عمل ہورہا ہے۔ شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تبلیغی پروگراموں کی ترتیب بن رہی ہیں۔ اس ہنگامہ خیز کام کو سنبھالنے کے لئے ۱۹۹۶ء میں حضرت مولانا نذیر احمد تونسویؒ کوئٹہ سے کراچی تشریف لائے۔ آپ پہلے تین سال یہاں کام کرچکے تھے۔ شہر کے کوچہ و بازار سے واقف تھے۔ آپ نئے جذبہ سے آئے۔ نئی حکمت عملی اپنائی۔ نئے رفقاء کی ٹیم ملی۔ اکابر کی شفقتوں و محبتوں کے زیر سایہ کام کی نیو اٹھائی۔ اب تو وہ کراچی کے محبوب خطیب اور رہنما بن گئے تھے۔ دن میں کئی کئی پروگرام عام معمول بن گئے تھے۔ معاملہ فہم تھے۔ دفتر میں ہر آنے جانے والے سے ڈیل کرنا آپ کا خاص فن تھا۔ ہر دلعزیزی کے مقام پر قدرت نے آپ کو فائز کیا تھا۔ حضرت لدھیانویؒ کی شہادت کے سانحہ کے بعد حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ حضرت مولانا مفتی سعید احمد جلال پوری کی رفاقت اور حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ کی راہ نمائی سے مولانا تونسویؒ نے مجلس کے کام کو ایسے طور پر سنبھالادیا کہ اس پر انہیں جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔ 
	کراچی کے ماحول نے آپ کو ایک سلجھا ہواسفارت کار بنادیا۔ آپ مجلس تحفظ ختم نبوت کے کیس کو جہاں لے کر گئے۔ کامیاب رہے۔ حکومت سے ملاقات۔ سرکاری حلقہ سے گفتگو۔ پولیس کے معاملہ میں۔ سرکاری دفاتر میں۔ رفقاء کے کام۔ تبلیغی خدمات۔ بیان عام وخاص‘ ملاقات و گفتگو پر آپ کو ایسی دسترس حاصل ہوگئی تھی جو آپ کا خاصہ تھی۔ بولتے نہ تھے۔ بلکہ موتی رولتے تھے۔ عام فہم سادہ مگر دل نشین گفتگو کے بادشاہ تھے۔ کوئی بھی قادیانی آتا تو آپ کی محبانہ و مخلصانہ تبلیغ سے مسلمان ہوجاتا۔ قادیانیوں کی کثیر تعداد کو آپ نے قبول اسلام کی نعمت سے سرفراز کیا۔ یہ آپ کی نجات کے لئے کافی ہے۔ من موہ لینے والی آپ کی شیریں گفتاری کے تذکرے مدتوں رہیں گے۔ 
	آپ کراچی تشریف لائے تو حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خانؒ پٹھان‘ مولانا نذیر احمد تونسویؒ بلوچ۔ دونوں بہادر‘ دونوں عالم دین‘ دونوں حق گو‘ دونوں خاندانی مجاہد‘ دونوں دل کے بادشاہ اور آنکھ کے غنی او ر دونوں اسلام کی سربلندی کے لئے سربکف۔ البتہ حضرت تونسوی صاحبؒ بہت دھیمے مزاج اور پختگی سے کام کو آگے بڑھانے کے خواہش مند و کاربند تھے۔ وہ تمام جھمیلوں سے بچ کر صرف اور صرف عقیدئہ ختم نبوت کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھتے تھے۔ جبکہ حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خانؒ نے تو دین اسلام کی خدمت کا کوئی ایسا شعبہ نہیں چھوڑا جس میں آپ نے اپنا مخلصانہ حصہ نہ ڈالا ہو۔ اب حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خانؒ برطانیہ گئے تو تونسوی صاحبؒ بھی جارہے ہیں۔ حج پر دونوں اکٹھے۔ خوب جوڑی بنی۔ خوب انہوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ چناب نگر کانفرنس یا اندرون سندھ کے پروگرام۔ غرض شرق و غرب‘ عرب و عجم‘ کراچی وقلات۔ ہر جگہ دونوں حضرات کی محبتوں اور دینی رشتہ نے ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا۔ دنیا سے منہ موڑا اورہم جیسے پسماندگان سے جدائی اختیار کی تو بھی ایک ساتھ۔رہے نام اللہ کا۔ 			       (لولاک شوال المکرم۱۴۲۵ھ)
۸۲…حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ
شہادت…۹اکتوبر۲۰۰۴ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter