Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

95 - 196
	حضرت مولانا نذیر احمد تونسویؒ نے ۱۹۸۰ء سے ۱۹۹۵ء تک کا دور کوئٹہ میں گزارا۔ آپ نے تحریکی کام کو آگے بڑھایا۔ آپ کی جماعتی تبلیغی سرگرمیاں بلوچستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیل گئیں۔ اسی اثناء میں آپ نے ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت کو بلوچستان میں پروان چڑھایا۔ عوام و خواص میں آپ نے کام کیا۔ آپ کی مخلصانہ تبلیغی مساعی کو اللہ رب العزت نے شرف قبولیت سے نوازا۔ کوئٹہ شہر میں اکابر علمائ‘ تجار اور دیندار مخلص رفقاء کی بھرپور ٹیم مل گئی۔ مولانا کے سرپرست و امیر حضرت مولانا منیر الدینؒ خطیب جامع مسجد سنہری قرار پائے۔ آپ یادگار اسلاف تھے۔ مخلص‘ صاحب علم‘ ولی‘ عالم دین تھے۔ آپ کا شہر کے دین دار حلقہ میں نمایاں اور امتیازی مقام تھا۔ آپ کی شخصیت کی سحر آفرینی نے حضرت مولانا تونسویؒ پر کام کرنے کے لئے راستے کھول دیئے۔ آپ نے ان راستوں کو شاہراہوں میں بدل دیا۔ مکران میں ذکری طبقہ کی خلاف اسلام سرگرمیوں پر آپ نے شب خون مارا تو ان کے خواب وخور حرام کردیئے۔ 
	حضرت مولانا نذیر احمد تونسوی شہیدؒ بلوچ تھے۔ بلوچی آپ کی مادری زبان تھی۔ پشتو پوری سمجھ لیتے تھے۔ بلکہ بولنے میں بھی طبع آزمائی کرلیتے تھے۔ سرائیکی اور اردو پر تو مکمل دسترس حاصل تھی۔ ان خوبیوں نے آپ کو ہردلعزیز بنادیا۔ ملنسار طبیعت تھی۔ سادہ مزاج تھے۔ لیکن اپنے موقف کے پکے تھے۔ فرماتے تھے کہ پٹھان یا بلوچ علماء میں کام کرنے میں مجھے دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ان کے مزاج و طبیعت سے واقف ہوگئے۔ خوب گھل مل گئے۔ تبلیغی کام نے وسعت اختیار کی۔ 
	اسی دوران وفاقی حکومت نے اسلم قریشی کو کوئٹہ لاکر لیاقت بازار کے دفتر مجلس تحفظ ختم نبوت سے برآمد کرنے کا ڈرامہ کرنا چاہا تو کوئٹہ کے آئی جی نے صاف کہہ دیا کہ ہمارا صوبہ حساس صوبہ ہے۔ مذہبی صوبہ ہے۔ ایسی حرکت کرنی ہے تو (ایک صوبے کا نام لے کر کہا) لے جائو۔ حضرت مولانا نذیر احمد تونسویؒ ان دنوں کوئٹہ دفتر میں ہوتے تھے۔ اخبار میں خبر چھپی کہ ایران کے بارڈر سے اسلم قریشی برآمد ہوئے۔ حضرت مولانا نذیر احمد تونسویؒ نے علماء کا وفد بنایا۔ آئی جی کے پاس جادھمکے۔ انہوں نے تردید کردی کہ یہاں سے برآمد نہیں ہوئے۔ اگلے دن ان کے حوالہ سے خبر شائع ہوئی تو ایجنسیوں کے کارندوں کا منہ کالا ہوا۔ ان کی سازش پر اوس پڑ گئی۔ 
	غرض حضرت مولانا تونسویؒ خوب زرخیرزدماغ انسان تھے۔ حضرت مولانا منیر الدینؒ کی سرپرستی اور رفقاء کی محنت سے مجلس کا کوئٹہ میں اپنا ذاتی دفتر قائم ہوگیا۔ زیرک و معاملہ فہم تھے۔ مولانا تونسویؒ کے کوئٹہ قیام کے دوران میں کراچی دفتر سائرہ مینشن سے پرانی نمائش باب الرحمت کے عقب میں منتقل ہوگیا۔ 
	مرزا طاہر کے فرار کے بعد انگلستان میں کام کی راہیں کھل گئیں۔ کراچی سے ہفت روزہ ختم نبوت کا اجراء ہوگیا۔ حضرت مولانا مفتی احمد الرحمنؒ‘ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ کی سرپرستی و شفقتوں نے حضرت مولانا منظور احمد الحسینیؒ کی چلتی پھرتی جوانی کو سراپا تحریک بنادیا۔ دن رات کا فرق رکھے بغیر ان اکابر کی سرپرستی اور رفقاء کی رفاقت میں کام کو اتنی وسعت دی کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ان دنوں حضرت حاجی لال حسینؒ ‘ حضرت مولانا مفتی احمد الرحمنؒ ایسے اکابر کراچی مجلس کے کام کی سرپرستی کرتے تھے۔ اب حضرت مولانا منظور احمد الحسینیؒ اور دیگر رفقاء بیرون ملک زیادہ وقت دینے لگے۔ اسی دوران میں کراچی مسجد و دفتر کی تعمیر جدید کا مرحلہ بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت لدھیانویؒ کی نظر شفقت اور ان حضرات کی مخلصانہ محنت سے سرکرادیا۔ حافظ محمد حنیف ندیم سہارنپوریؒ روزنامہ صداقت کراچی سے ہفتہ وار لولاک فیصل آباد سے ہوکر ہفت روزہ ختم نبوت کراچی میں آگئے تھے۔ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter