Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

94 - 196
ہے۔ مولانا تونسویؒ اس بستی کے رہائشی تھے۔ ۱۹۵۷ء میں آپ نے اس بستی کے ایک بزرگ جناب اللہ بخش تونسویؒ کے گھر آنکھیں کھولیں۔ ذرا سیانے ہوئے تو ٹبی کے مدرسہ معراج العلوم اور ریتڑہ کی جامع مسجد اور پھر ممدال تحصیل کبیر والا میں قرآن مجید حفظ کیا۔ ان دنوں آپ کے بڑے بھائی قاری منظور احمد صاحب دارالعلوم پیپلز کالونی فیصل آباد میں مدرس تھے۔ ان کے ساتھ فیصل آباد آئے۔ دینی کتب کی تعلیم ابتداء سے دورئہ حدیث شریف تک یہاں حاصل کی۔ 
	۱۹۷۴ء سے ۱۹۷۶ء تک کا ہنگامہ خیز وقت آپ کا فیصل آباد میں گزرا۔ آپ ان دنوں کتب کے آخری درجہ میں پڑھ رہے تھے۔ تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء یا اس کے بعد جمعہ پڑھنے کے لئے ریلوے کالونی جامع مسجد میں حضرت مولانا تاج محمود ؒکے ہاں تشریف لاتے۔ آہستہ آہستہ معمول بن گیا۔ ان دنوں مولانا تونسویؒ سبزہ آغاز تھے۔ معصوم چہرہ۔ سر پر رومال۔ ادائوں میں خطیب اہل سنت حضرت مولانا عبدالشکور دین پوریؒ کی جھلک۔ بول چال میں مترادف الفاظ کا بے دریغ استعمال۔ ہم وزن جملوں سے گفتگو کو مرقع حسن بنانا۔ یہ مولانا تونسویؒ کی طلب علمی کی زندگی کی نشانیاں قرار دی جاسکتی ہیں۔ حضرت مولانا عبدالشکور دین پوری صاحب طرز خطیب تھے جو حضرت مولانا نذیر احمد تونسویؒ کا آئیڈیل تھے۔ خدا کی قدرت کہ کسی حد تک مولانا تونسویؒ کا چہرہ مہرہ بھی حضرت مولانا دین پوریؒ سے میل کھاتا تھا۔ مولانا تونسویؒ کا حضرت مولانا تاج محمودؒ کے ہاں جمعہ کے لئے آنا۔ جمعہ کے بعد حضرت مرحوم کے ہاں چائے کی مجلس میں شرکت۔ اس عمل نے مولانا نذیر احمد تونسویؒ کو مجلس تحفظ ختم نبوت کے قریب کردیا۔ مولانا نذیر احمد تونسویؒ کی پڑھائی کے آخری سالوں میں مولانا تاج محمود مرحوم نے آپ کی ذہن سازی کی کہ آپ مجلس تحفظ ختم نبوت میں شامل ہوجائیں۔ ادھر آپ نے حضرت مولانا محمد شریف جالندھریؒ سے فرمایا کہ نذیر تونسویؒ کام کا نوجوان ثابت ہوگا۔ اسے مجلس کے شعبہ تبلیغ میں جذب کرلو۔ 
	فراغت کے بعد مولانا نذیر احمد تونسویؒ نے دفتر مرکزیہ ملتان میں فاتح قادیان مولانا محمد حیات صاحب ؒکے پاس ردِ قادیانیت پر سہ ماہی کورس کیا۔ اس کلاس میں مولانا عبدالعزیز لاشاری اور حافظ احمد بخش صاحبؒ بھی آپ کے ہم درس تھے۔ حافظ صاحبؒ رحیم یار خان‘ لاشاری صاحب کراچی اور مولانا نذیر احمد کی کوئٹہ تقرری ہوگئی۔ آپ نے چھ ماہ کوئٹہ گزارے۔ یہ ۱۹۷۷ء کی بات ہے۔ چھ ماہ کوئٹہ میں گزار کر سردیوں میں کراچی آگئے تو کراچی سے مولانا عبداللطیف آرائیں علی پوری کو کوئٹہ بھیج دیا گیا اور آپ کراچی میں مجلس کے دفتر واقع بندر روڈ پر تبلیغی خدمات انجام دینے لگے۔ مولانا لاشاری دفتری امور کے انچارج اور مولانا تونسویؒ تبلیغی خدمات کے مسئول تھے۔ سائرہ مینشن میں دفتر ہوتا تھا۔ حافظ محمد حنیف ندیم سہارنپوری ان دنوں صداقت اخبار میں ہوتے تھے۔ ان تینوں حضرات نے مل کر قادیانیت کے خلاف تبلیغی معرکہ گرم کیا۔ 
	حضرت مولانا نذیر احمد تونسویؒ نے تقریباً تین سال کراچی میں کام کیا۔ ادھر کوئٹہ میں ان دنوں لیاقت بازار میں کرایہ کی بلڈنگ میں مجلس کا دفتر قائم تھا۔ مجلس کے مبلغ مولانا عبداللطیف تھے۔ مجلس کے کام کے مسئول منظور احمد مغل‘ اور پرانے حضرات میں مولانا محمد انور صاحب نمایاں تھے۔ مولانا انور اور جناب منظور احمد مغل برسوں سے مجلس کے ساتھ وابستہ تھے۔ مجلس کے کام پر ان کی چھاپ تھی۔ مولانا عبداللطیف صاحب نے خوب کام کیا۔ پورے صوبہ میں دن رات ایک کردیا۔ مجلس کے کام کو مہمیز لگی۔ لیکن کوئٹہ شہر کے جماعتی نظم کی شکل ان دو حضرات کی شناخت بن کر رہ گئی تھی۔ چنانچہ مولانا عبداللطیف کو بہاولپور اور مولانا نذیر احمد کا کراچی سے کوئٹہ تبادلہ کردیا گیا۔ یہ ۱۹۸۰ء کے لگ بھگ کا دور ہے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter