Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

93 - 196
تو ایک دوست کو مولانا خدا بخش صاحبؒ نے فرمایا کہ یہ مقالہ کتابی شکل میں میرے پاس بیس سال سے موجود ہے۔ مولانا اور فقیر کے رہائشی کمرے شمالاً جنوباً ہیں۔ پانچ فٹ پر کتاب مولانا کے پاس پڑی ہے اور میں تلاش میں دیوانہ ہورہا ہوں۔ لیکن مولانا نے کتاب کی ہوا تک نہ لگنے دی۔ یہ سنا تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ عرض کیا کہ حضرت! واقعی کتاب آپ کے پاس تھی؟۔ بلاتکلف فرمایا ! ہاں تھی اور اب بھی ہے۔ حضرت! آپ نے ذکر تک نہیں کیا؟۔ فرمایا کہ میری کتاب تھی۔ مجھے حق حاصل تھا کہ میں آپ کو دوں یا نہ دوں۔ واقعی دلیل وزنی تھی۔ میں لاجواب ہوگیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مولانا کی قوت ارادی کتنی مضبوط تھی۔ لیکن مولانا مرحوم کے اس طرز عمل سے نہ صرف مجھے بلکہ مجلس کو یہ فائدہ ہوا کہ اس مقالہ کے تلاش کرتے کرتے پانچ صد سے زائد نایاب کتب ردِ قادیانیت کا مجلس کے کتب خانہ میں (اصل یا فوٹو) اضافہ ہوگیا۔ 
	حضرت مولانا عبدالرحیم اشعر ؒ جب مجلس کی لائبریری کے انچارج تھے تو ردِ قادیانیت پر کتب کی تعداد آٹھ صد کے قریب ہوگی۔ اب یہ تعداد اٹھارہ صد کے قریب ہے۔ اس زمانہ میں یقینا نئی کتب شامل ہوئیں۔ لیکن پانچ صد یا اس سے بھی زائد وہ ہیں جو اس مقالہ کی تلاش میں حاصل ہوئیں اور مجلس کے کتب خانہ میںاضافہ ہوا۔ جس کا باعث مولانا خدا بخش بنے اور یقینا اس کا ثواب بھی ان کو ہوگا۔
	مولانا مرحوم نے قلم و قرطاس سے کبھی تعلقات استوار نہیں کئے چار سطری خط بھی لکھنا ان پر کوہ ہمالیہ کی چوٹی سر کرنے کے برابر تھا۔ کبھی ترنگ میں آکر کچھ لکھا تو خوب تر لکھا۔ البتہ کتب بینی و مطالعہ کے رسیا تھے۔ آخری عمر تک کوئی کتب پڑھے بغیر نہ چھوڑتے تھے۔ اکثر مجالس ان کی علمی ہوا کرتی تھیں۔ طالب علمی اور عملی زندگی میں مولانا کی طبیعت ہمیشہ سہل پسند واقع ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کی آخرت کو بھی سہل فرمائیں۔ وما ذالک علی اللہ بعزیز!
	ہزاروں ان کے شاگرد پورے ملک کی سرزمین کے چپہ چپہ پر ان کی تبلیغ کے اثرات۔ چناب نگر کے مساجد و مدارس ان کے لئے ذخیرۂ آخرت ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں۔ گزشتہ سال چناب نگر میں کورس کے دوران شوگر کی بیماری کے باعث طبیعت مضمحل ہوئی۔ سال بھر علاج جاری رہا۔ مولانا نے ہمت نہ ہاری۔ کسی کے محتاج نہ ہوئے۔ لیکن مکمل روبصحت بھی نہ ہوسکے۔ جان پہچان‘ حافظہ‘ مکمل آخیر تک کام کرتا رہا۔ وقت موعود آن پہنچا تریسٹھ سال کی عمر میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر رب کے حضور حاضر ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا اپنی شایانِ شان معاملہ فرمائیں۔آمین! بحرمۃ النبی لامی الکریم خاتم النبیین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۰ برحمتک یا ارحم الرحمین!			        (لولاک شوال المکرم۱۴۲۶ھ)
۸۳…حضرت مولانا نذیر احمد تونسوی شہیدؒ
شہادت…۹اکتوبر۲۰۰۴ء
	عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے فاضل‘ اجل‘ مبلغ حضرت مولانا نذیر احمدتونسوی شہیدؒ ۱۹اکتوبر۲۰۰۴ء کو شہید کردئیے گئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون!
	حضرت مولانا نذیر احمد تونسوی شہیدؒ بلوچوں کے قیصرانی قبیلہ کے چشم و چراغ تھے۔ تونسہ شریف معروف جہاں شہر ہے۔ اس کے مضافات میں ڈیرہ اسماعیل روڈ پر معروف قدیمی قصبہ ٹبی قیصرانی ہے۔ ٹبی سے مغربی جانب پہاڑوں کے دامن اور ریت کے ٹیلوں کے وسط میں بستی مالھ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter