Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

92 - 196
کو خوب نبھایا۔ مثلاً مناظر اسلام امام اہلسنت مولانا عبدالستار تونسوی اور حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ خطیب اسلام کے مزاج میں آخری دور میں جماعتی ہم آہنگی نہ رہی۔ لیکن مولانا خدا بخشؒ نے دونوں حضرات سے تعلق نبھایا اور خوب نبھایا۔ حضرت مولانا اپنے کام سے کام رکھتے۔ جس مجلس یا ماحول میں جاتے ان کی ہاں میں ہاں ملاکر گوشہ عافیت تلاش کرتے ان پر اپنی رائے مسلط کرنا یا ان سے اختلاف کرنا ان کے مزاج کے خلاف تھا۔
	پنجابی کا محاورہ ہے ’’جتنا ٹرساں ستھرا ٹرساں‘‘ جو کام کیا صاف کیا۔ سارے جہاں کا کام اپنے ذمہ بالکل نہ لیتے تھے۔ عزیمت کی بجائے رخصت پر زندگی بھر عمل کیا۔ ’’خلق الانسان ضعیفا ‘‘کی عملی تفسیر تھے۔ زندگی خوب مزے سے گزاری۔ نہانا‘ کپڑے بدلنا‘ حجامت بنانا‘ وقت پر کھانا‘ وقت پر نیند۔ غرض عبادت و ریاضت‘ تلاوت و ذکر جو معمولات تھے۔ وقت پر کرنے کے قائل تھے۔ زندگی بھر کبھی جھمیلوں میں نہیں پڑے۔ ان کی مجلس میں دو مختلف المزاج یا مختلف النظریہ دوست جمع ہوجاتے۔ ان کے درمیان خود متنازعہ موضوع کو چھیڑدیتے۔ اب ان دونوں کی طرف سے گرم و سرد دلائل شروع ہوجاتے۔ آپ ابتدا میں ایک کی‘ پھر دوسرے کی حمایت کرتے۔ جب مجلس خوب جم جاتی بات تکرار تک پہنچ جاتی تو صلح کرادیتے اور وعظ و نصیحت سے کام لیتے کہ میاں اپنے اپنے موقف پر خوب دلائل دو۔ تلخی ٹھیک نہیں۔ دوستوں کی گرم مزاجی ناقابل اصلاح ہوجاتی تو دامن جھاڑا۔ چادر کندھے پر رکھی اور اس پورے قضیہ سے لاتعلق ہوکر بیٹھ گئے۔ دوستوں کو ایسے پٹخنی دیتے کہ ان کا دھڑن تختہ ہوجاتا۔ کوئی شکوہ کرتا تو فرمادیتے کہ تمہیں کس بے وقوف نے کہا تھا کہ معاملہ کو یہاںتک لے جائو۔ فقیر کو دو بار حضرت مولانا کے ساتھ حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان کی پوری تبلیغی زندگی میں اکثر و بیشتر ساتھ رہا۔ ابتدا میں حضرت مولانا سید منظور احمد شاہ حجازیؒ‘ مولانا خدا بخشؒ اور فقیر ہم تینوں کی مجلس میں تکون قابل رشک ہوتی۔ جس مجلس میں اکٹھے ہوئے منہ‘ کان‘ کندھا ملاکر اکٹھے مصرعہ اٹھاتے اور سماں باندھ دیتے۔ اچھے دوست تھے اور بہت اچھے دوست تھے۔ فقیر سے چند ماہ مجلس میں پہلے آئے تھے۔ لیکن علم و فضل‘ قابلیت و صلاحیت معاملہ فہمی ہر اعتبار سے فقیر سے کروڑگنا سینئر تھے۔ بایں ہمہ اتنا عرصہ اتنے قرب کے باوجود ان کی زندگی کے بعض پہلو ایسے تھے جس میں اپنی مثال آپ تھے۔ آج سے دس گیارہ سال قبل کی بات ہوگی کہ ’’قادیانیت کے خلاف قلمی جہاد کی سرگزشت‘‘ کتاب مرتب ہورہی تھی۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم کا مضمون ماہنامہ ’’حقیقت اسلام‘‘ لاہور میں قسط وار شائع ہوا تھا۔ جسے نصف صدی بیت چکی تھی۔ عنوان تھا ’’شناخت مجدد‘‘ پروفیسر صاحب مرحوم نے مجدد کے دس معیار قائم کرکے اس پر مرزا قادیانی کو نا پایا تو قادیانی کذاب کوتاہ قامت اور کند ذہن ثابت کیا۔ لاہوری مرزائیوں کے رد میں بہت عمدہ مقالہ تھا‘ لیکن اس کی کچھ اقساط مرکزی دفتر کی لائبریری سے شارٹ تھیں۔ مولانا خدا بخشؒ سے تذکرہ ہوا۔ مضمون کی خوب تعریف فرمائی۔ اس کی اشاعت پر بھرپور لیکچر دیا اور فرمایا کہ میں نے اسے مکمل کتابی شکل میں پڑھا ہے۔ بہت عمدہ دستاویز ہے۔ اسے ضرور شائع ہونا چاہئے۔ مولانا کی مہمیز لگانے سے میری تلاش کی رفتار تیز ہوگئی۔ بہاولپور‘ ملتان‘ لاہور‘ اسلام آباد ‘ کراچی کی سرکاری و غیر سرکاری لائبریریوں کو چھان مارا اقساط مکمل نہ ہوسکیں۔ اس کی تلاش کا جنون سوار تھا (بعد میں مولانا محمد اقبال نعمانی خطیب علی پور چٹھہ کی زبانی معلوم ہوا کہ پروفیسر یوسف سلیم چشتیؒ ہمارے استاذ مناظر اسلام حضرت مولانا لال حسینؒ اختر کے کالج کے زمانہ کے استاذ تھے یہ نسبت نہ بیٹھنے دیتی تھی) دس گیارہ سال تلاش کی دھن سوار رہی اور اس صورت حال کے لمحہ لمحہ کی مولانا خدا بخش صاحبؒ کو اطلاع تھی۔ بلکہ ان کے سامنے سب کچھ ہورہا تھا۔ دس گیارہ سال بعد وہ مقالہ کتابی شکل میں جھنڈیر لائبریری میلسی سے مل گیا۔ فوٹو لیا۔ ماہنامہ ’’لولاک‘‘ میں قسط وار شائع کیا۔ ماہنامہ ’’لولاک‘‘ میں اس مقالہ کے ’’انٹرو‘‘ میں مولانا خدا بخش صاحبؒ کے حکم پر شائع کرنے کا اعتراف کیا۔ بعدہ اسے احتساب قادیانیت کی کسی جلد میں شائع کرکے سکون پایا 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter