Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

91 - 196
آباد کے رہائشی تھے۔ حاجی سلطان محمود صاحب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر ثانی‘ خطیب پاکستان حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ کے جمعہ کے نمازی تھے۔ قاضی صاحبؒ انہیں شفقت سے اپنا بھائی کہتے تھے۔ حاجی سلطان محمودؒ نے اپنے گھر سے قریبی بستی میں حضرت مولانا محمد واصل ؒ کے ہاں اپنے فرزند خدا بخش کو ناظرہ قرآن مجید کے لئے بٹھایا۔ جب اس سے فراغت ہوئی تو ان کو دینی تعلیم کے لئے دارالعلوم کبیروالا میں داخل کرادیا۔ مولانا خدا بخشؒ اس لحاظ سے خوش نصیب تھے کہ بیک وقت حضرت مولانا عبدالخالقؒ‘ حضرت مولانا عبدالمجید صاحب دامت برکاتہم‘ حضرت مولانا علی محمد صاحبؒ‘ حضرت مولانا علامہ منظور الحقؒ‘ حضرت علامہ ظہور الحقؒ ایسے شہرۂ آفاق ’’اکابر خمسہ‘‘ سے آپ نے کسب فیض کیا۔ کریما سے بخاری شریف تک کی تعلیم ’’یک درگیر و محکم گیر‘‘ کے مصداق دارالعلوم کبیر والا میں حاصل کی۔
	۶۵؍۱۹۶۶ء میں آپ نے دورئہ حدیث شریف کیا‘ فراغت کے بعد سال چھ ماہ مدرسہ تعلیم الابرار ملتان میں تدریس کی۔ اس کے بعد عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے شعبہ تبلیغ سے وابستہ ہوگئے۔ مولانا خدا بخش صاحبؒ نے اپنی بھرپور جوانی سے بڑھاپے تک تقریباً ۳۸ سال عقیدئہ ختم نبوت کی پاسبانی کا فریضہ انجام دیا۔ حضرت مولانا جوانی میں میانہ قد‘ گندم گوں سرخی مائل رنگ‘ کتابی چہرہ‘ بھرواں جسم‘ اجلے لباس‘ میں ہر جگہ نمایاں نظر آتے تھے۔ چومکھی لڑائی میں قادیانیت کے خلاف شب و روز منہمک رہے۔ دوستوں کے دوست تھے۔ ہر وقت رفقاء کے جھرمٹ میں گھرے رہتے تھے۔ ان کے ہاں کوئی راز نہ تھا۔ کوئی ان سے راز کی بات کہتا اس کے اٹھنے سے پہلے اسے وہ گویا انٹرنیٹ پر فیڈ کرکے نشر کردیتے۔ ا س حکمت عملی کا فائدہ یہ ہوا کہ کوئی کسی کی غیبت کرنے سے قبل ہزار بار سوچتا کہ یہ بات ظاہر ہوجائے گی۔ ویسے وہ بات اگلوا گر معاملہ کی تہہ تک پہنچنے کے ماہر تھے۔ مولانا خدا بخشؒ نے تدریس نہ کی۔ ورنہ وہ ذی استعداد بہت اچھے مدرس بن سکتے تھے۔ افہام و تفہیم پر ان کو مکمل دسترس تھی۔ مشکل سے مشکل بات آسان پیرایہ میں اور سخت سے سخت مطالبہ خوبصورت نرم الفاظ میں بیان کرنے کے خوگر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی بھر کبھی جیل‘ مقدمہ‘ گرفتاری کی آزمائش میں مبتلا نہیں ہوئے۔
	ڈیرہ غازی خان‘ بہاولپور‘ بہاولنگر میں مجلس کے مبلغ رہے۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران میں آپ بہاول نگر کے مبلغ تھے۔ تحریک کو اپنے حلقہ میں پروان چڑھانے کے لئے ہمہ تن مصروف عمل رہے۔ تحریک کے نتیجہ میں چناب نگر کو کھلا شہر قرار دیا گیا تو ۱۹۷۴ء کے اواخر میں جن حضرات نے سب سے اول اہل اسلام کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا ان میں حضرت مولانا مرحوم بھی شامل تھے۔ پہلے بلدیہ کے تھڑا پر نمازوں کا اہتمام‘ پھر مسجد محمدیہ ریلوے اسٹیشن کی تعمیر‘ بعدہ مسلم کالونی میں مسجد و مدرسہ کا قیام۔ ان تمام کاموں میں وہ برابر کے حصہ دار تھے۔ حق تعالیٰ نے آپ کو ردِ قادیانیت پر کامل دسترس بخشی تھی۔ اس وقت نئی ٹیم کے اکثر و بیشتر مبلغین حضرات کے آپ استاذ تھے۔ آپ نے مناظر اسلام فاتح قادیان مولانا محمد حیاتؒ سے ردِ قادیانیت کی تربیت حاصل کی تھی اور مولانا محمد حیاتؒ کے منظور نظر شاگردوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ یہی حال باقی اساتذہ کا تھا۔ حضرت مولانا مرحوم مردم شناس تھے۔ اساتذہ کے مزاج کو سمجھتے اور پھر اس کے مطابق طرز عمل اختیار کرکے ان کے دلوں میں گھر کر جاتے اور دعائیں لیتے۔
	حضرت مولانا دھڑے کے پکے کی بجائے ’’رانجھا سب دا سانجھا‘‘ پر عمل پیرا ہوتے۔ البتہ جن سے دلی تعلق ہوتا ان کے متعلق کبھی کوئی پہلو دار گفتگو نہ سن سکتے تھے۔ عزت دار شخص تھے۔ اپنے مفاد یا ذات کے متعلق کوئی خفت کا پہلو آتا تو ان کی طبیعت کڑھائی میں چنے کی طرح رقص کناں ہوجاتی تھی۔ حضرت مولانا نے بیک وقت مختلف الخیال حضرات سے دوستی کی اور اس 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter