Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

90 - 196
سے مہمانوں کو کھانا کھلانے کا نظم حضرت قاری محمد ابراہیم صاحب مہتمم جامعہ طیبہ گرین ٹائون فیصل آباد کے ذمہ ہوتا ہے۔ قاری محمد اشفاق صاحب بخاری مسجد جناح کالونی‘ قاری محمد ابوبکر دونوں حضرات کی سرپرستی میں سینکڑوں طلباء کھانے کے پنڈال میں ڈیوٹی دیتے ہیں۔ ۲۹ستمبر ۲۰۰۵ء بروز جمعرات مغرب کے بعد فقیر راقم کھانے کے پنڈال میں مہمانوں کی خدمت میں مصروف تھا۔ اسی اثنا میں موبائل پر کال آئی۔ فون کرنے والے نے جب کہا کہ: ’’ارشد شجاع آبادسے بول رہا ہوں‘‘ تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ ارشد صاحب مولانا خدا بخش صاحب کے خواہر زادہ ہیں۔ جنہیں مولانا کے کہنے پر مولانا عبدالرئوف جتوئی مرحوم نے ٹیلی فون کے محکمہ میں بھرتی کرایا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت مولانا خدا بخش صاحب انتقال فرماگئے۔ انا ﷲ وانا الیہ راجعون! کل ۳۰ستمبر جمعہ کو جنازہ ہوگا۔ حضرت مولانا عزیزالرحمن جالندھری دامت برکاتہم یا آپ‘ کوئی ایک ضرور شرکت کرے۔ ہزاروں مہمان ملک بھر سے آئے ہوئے تھے۔ کانفرنس جاری تھی۔ درمیان سے وقت نکالنا ناممکن تھا۔ ان سے عرض کیا کہ ہم مشورہ کرتے ہیں۔ ضرور سبیل نکالنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن آپ ہمارا انتظار نہ کریں۔ اپنی سہولت کے مطابق جنازہ کا نظم بنائیں۔ ہمارا مقدر ہوا تو شریک ہوجائیں گے۔ لیکن ہمارے انتظار کی وجہ سے جنازہ میں تاخیر بالکل نہ ہونے پائے۔
	جامعہ باب العلوم کہروڑ پکا کے شیخ الحدیث‘ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی پالیسی ساز شخصیت حضرت مولانا عبدالمجید صاحب لدھیانوی دامت برکاتہم کانفرنس کے پہلے دن ظہر کے قریب کانفرنس میں شرکت کے لئے تشریف لائے۔ اگلے روز جمعہ سے قبل آپ کے بیان کا نظم طے تھا۔ پہلی رات کی نشست کی صدارت بھی آپ نے کرنا تھی۔ جمعہ سے قبل کورس کے تین سو فضلاء اور حفظ کے پندرہ طالب علموں کو اسناد و انعامی کتب بھی آپ کے ہاتھوں دینے کا نظم طے تھا۔ آپ نے ان امور میں بیک وقت اپنی طرف سے اصالتاً اور حضرت امیر مرکزیہ دامت برکاتہم اور حضرت اقدس سید نفیس الحسینی دامت برکاتہم نائب امیر کی طرف سے نیابتاً نمائندگی فرمانا تھی۔ وہ ظہر سے قبل تشریف لائے تھے۔ اطلاع کے باوجود فقیر ان کی زیارت کے لئے وقت نہ نکال پایا تھا۔ اب آپ کی طرف سے یکے بعد دیگرے دو تین آدمی آئے کہ: ’’حضرت شیخ‘‘ یاد فرمارہے ہیں۔ اس وقت شام کا کھانا کھلانے کا کام عروج پر تھا۔ ہزاروں ساتھی کھانے کے پنڈال میں کھانا کھارہے تھے۔ اس سے کہیں زیادہ انتظار میں تھے۔ لیکن آنکھیں بند کرکے ’’حضرت شیخ‘‘ سے ملاقات کے لئے چل پڑا۔ ابھی تک کسی کو حضرت مولانا خدا بخش مرحوم کے انتقال کی خبر فقیر نے نہیں سنائی تھی۔ ’’حضرت شیخ‘‘ کی خدمت میں حاضر ہواتو آپ نے شفقت سے گلے لگایا۔ تھپکی دی۔ تمام تھکاوٹیں دور ہوگئیں۔ فرمایا کہ تین کاموں کے لئے آپ کو بلایا ہے۔ ایک تو مولانا خدا بخشؒ کی تعزیت کرنی ہے۔ دوسرا جنازہ میں شرکت کے لئے مشورہ کرنا ہے۔ تیسرا آپ کو کھانا کھلانا ہے۔ اس لئے کہ میری اطلاع کے مطابق کام کی زیادتی کے باعث آپ ان دنوں کھانا نہیں کھاپاتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت مولانا خد ابخشؒ کے عزیزوں کا آپ کو فون آچکا تھا۔ وہ آپ سے جنازہ پڑھانے کے لئے اصرار کررہے تھے۔ فقیر نے عرض کیا کہ حضرت! مولانا خدا بخش صاحبؒ تو ہمارا رأس المال تھے۔ پوری رات آپ کے لئے سفر کرنا۔ پھر یہاں کانفرنس میں تقسیم اسناد‘ صدارت‘ بیان‘ ان کا کوئی متبادل حل سامنے نظر نہیں آتا۔ دسترخوان پر دیر تک حضرت مولانا خدا بخش صاحبؒ کا ذکر خیر جاری رہا۔ رات کے اجلاس میں کانفرنس کے منتظم اعلیٰ حضرت مولانا صاحبزادہ عزیز احمد نے مولانا مرحوم کے لئے قرارداد تعزیت پیش کی۔
	حضرت مولانا خدا بخش صاحبؒ کے والد گرامی کا نام حاجی سلطان محمودؒ تھا۔ سیوڑا قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ خاندانی طور پر زمیندارہ پیشہ تھا۔ چاہ سدو والا موضع رکن ہٹی تحصیل شجاع 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter