Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

87 - 196
	حضرت درخواستیؒ کو قدرت نے بلا کا حافظہ دیا تھا۔ آپ حدیث شریف کے حافظ کے طور پر پورے ملک میں جانے پہچانے جاتے تھے۔ محبت و ایثارکا مجسمہ تھے۔ جب بھی ملک میں تبلیغی سفر پر نکلتے تو ایک ایک دن میں کئی کئی جلسوں سے خطاب فرماتے تھے۔ اس میں دن و رات‘ گرمی و سردی‘ صبح و شام‘ سفر و حضر‘ شہر و دیہات کی پابندی نہ ہوتی تھی۔ بڑے بڑے جفاکش‘ ایثار پیشہ علماء کرام تھک جاتے تھے۔ مگر آپ کو قدرت نے ایسی مٹی سے بنایا تھا جس میں تھکاوٹ و آرام کا نام تک نہ تھا۔ ایک وقت تھا کہ ہر جلسہ میں آپ بنیادی خطیب ہوتے تھے۔ قدرت نے آپ کو یہ مقام محبوبیت بخشا تھا کہ آپ کے سامنے کسی بھی خطیب کا چراغ نہ جلتا تھا۔ سادہ عام فہم تقریر فرماتے۔ مگر اس میں اتنا اثر ہوتا تھا کہ گھنٹوں خود بھی روتے تھے اور لوگوں کو بھی رلاتے تھے۔ آپ جہاں جاتے بغیر اشتہار و اعلان کے ہزاروں کا اجتماع ایک عام سی بات سمجھی جاتی تھی۔ خیرالقرون کے زمانہ کی روایات کے امین و حافظ تھے۔ قدرت نے آپ کو خوبیوں کا مجموعہ بنادیا تھا اور آپ کی تمام تر خوبیاں حفاظت و اشاعت اسلام کے لئے وقف تھیں۔
	حضرت مفتی محمودؒ کے بعد جمعیت علماء اسلام پاکستان انحطاط کا شکار ہوگئی۔ مفکر اسلام مفتی محمودؒ آپ کے دست و بازو تھے۔ ان کی وفات کا صدمہ اور بڑھاپا۔ جمعیت علماء اسلام جس کے لئے آپ نے اپنی جوانی لٹادی تھی۔ اس میں بعض ناگفتہ بہ حالات پیدا ہوگئے۔ جنرل ضیاء الحقؒ کے زمانہ میں بعض مدارس نے زکوٰۃ کے نام پر سرکاری گرانٹ لینا شروع کردی۔ اس کے بداثرات نے جمعیت علماء اسلام پاکستان کی پرشکوہ عمارت کی بنیادوں کو ہلادیا۔ یہ صدمات حضرت درخواستیؒ کے لئے سوہان روح بن گئے‘ بڑھاپا‘ قابل اعتماد رفقاء کی رحلت‘ جمعیت کا اختلاف‘ یہ صدمات حضرت درخواستیؒ کے لئے مستقل روگ بن گئے۔ جن حضرات کے ساتھ آپ نے کام کیا تھا اور اب جن سے پالا پڑا۔ ان میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ مشرق و مغرب کا فرق تھا۔ اجالے اور اندھیرے کا فرق تھا۔ دن رات کا فرق تھا۔ محتاط اور غیر محتاط کا فرق تھا۔ آپ کی حساس طبیعت نے ان حالات کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ آپ کنارہ کش ہوگئے۔ بیماریوں نے آپ کو گھیر لیا۔ سرگرمیاں محدود ہوگئیں۔ مگر بعض ’’شخصے غلط کار‘‘ لوگوں نے اس اختلاف میں بھی آپ کے نام کو غلط طور پر اپنے اغراض کے لئے استعمال کیا۔ اس سے آپ کی ذات کو متنازعہ بنادیا گیا۔ نادان لوگوں کی نادانی نے حضرت درخواستیؒ کی زندگی کے ان برسوں کو کربناک بنادیا۔ آپ کی طبیعت ایسی بگڑی کہ سنبھالے نہ سنبھل سکی۔ ورثاء و شاگرد‘ ڈاکٹروں سے جسمانی بیماریوں کا علاج کراتے رہے۔ مگر آپ کے دل کا کانٹا کوئی نہ نکال سکا۔ یا حسرتا! 
	اتنا عظیم شخص‘ ماحول‘ رفقاء اور شاگردوں سے ایسا روٹھا کہ آپ کو منانے کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوسکی۔ آپ کس قافلہ کے شخص تھے؟۔ اور اب کن لوگوں سے واسطہ پڑ گیا تھا؟۔ آپ کی زندگی میں جمعیت کو متحد کرنے کی ایک کوشش بھی ہوئی۔ بظاہر اتحاد ہو بھی گیا۔ مگر بعض ایسے لوگوں کو یہ گھڑی قیامت معلوم ہوئی۔ وہ اپنی قیادت کے حصار سے باہر نکلنے کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے۔ اس کوشش پر انہوں نے اپنا ہاتھ دکھایا۔ پھر وہی تھوکا فضیحتی۔ اس سے آپ کی طبیعت مزید نڈھال ہوگئی۔ اس انتشار کے بعد آپ نے عام اجتماعات میں جانا چھوڑ دیا۔ بلکہ یوں کہئے کہ آپ کا دل بھر گیا۔ نہیں بلکہ یوں تعبیر زیادہ مناسب ہوگی کہ آپ کا دل بجھ گیا۔ بعض مخلص نیازمند کبھی کبھار اصرار کرکے بخاری شریف کے ختم کے موقع پر آپ کو لے جاتے۔ آپ بیان بھی فرماتے مگر آپ کا دل ماحول سے اتنا زیادہ دکھی تھا کہ طبیعت میں انشراح نہ ہوتا۔ آنسو بہاتے۔ صبر ایوب علیہ السلام کے وارث! تیری عظمت کو سلام۔ مجال ہے کہ کبھی اپنے دل کے زخم کا کسی کے سامنے اظہار کیا ہو۔ مگر بایں ہمہ آپ کے بے اختیار آنسو آپ کے درد دل کی چغلی ضرور کھاتے تھے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter