Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

86 - 196
اپنا خون جگر پیش نہ کیا ہو۔ پاکستان میں دینی مدرسوں کا جال پھیلانے کے لئے قدرت نے آپ سے تجدیدی کام لیا۔
	تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء میں آپ نے پورے ملک میں کام کیا‘ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ حضرت امیر شریعتؒ‘ مولانا ابوالحسناتؒ‘ مولانا محمد علی جالندھریؒ‘ مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ اور دیگر اکابر کی گرفتاری کے بعد آپ نے تحریک کے الائو کو جلا بخشی۔
	آپ نے ہمیشہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے کام کی سرپرستی فرمائی‘ تغلق روڈ ملتان پر واقع دفتر ختم نبوت کا آپ نے سنگ بنیاد رکھا۔ پورے ملک میں ختم نبوت کی کوئی ایسی کانفرنس نہ ہوتی تھی جس میں آپ شریک نہ ہوتے ہوں۔ ایک دفعہ بہاولپور کی عیدگاہ میں ختم نبوت کانفرنس تھی۔ سردی کا موسم تھا۔ مگر اس کے باوجود ہزاروں کی حاضری تھی۔ مجاہد ملت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کی دعوت پر آپ آخری اجلاس میں تشریف لائے۔ مولانا محمد علی جالندھریؒ نے کانفرنس کے کارکنوں کو سمجھادیا کہ عشاء کے بعد میری پہلی تقریر ہوگی۔ حضرت درخواستیؒ کو آپ گیارہ بجے اسٹیج پر لے آئیں تاکہ ان کا آخری بیان ہوسکے۔ کارکنوں نے حضرت درخواستیؒ کو وقت نہ بتایا۔ آپ نے سمجھا ہوگا کہ آج صرف میری تقریر ہے۔ کانفرنس میں مولانا محمد علی جالندھریؒ کی تقریر کی ابتدا میں آپ اسٹیج پر تشریف لائے۔ آپ کے آنے پر ہمیشہ ہر جلسہ کی طرح اجتماع زیارت کے لئے امڈ پڑا۔ مولانا محمد علی جالندھریؒ کو تقریر روکنا پڑی۔ آپ اسٹیج پر تشریف لائے۔ مولانا محمد علی جالندھریؒ نے فرمایا کہ حضرت آپ کی تقریر گیارہ بجے ہوگی۔ ابھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی ہے۔ مجھے بہت ضروری باتیں ردِ قادیانیت پر کہنی ہیں۔ آپ چاہیں تو تشریف رکھیں۔ چاہیں تو گیارہ بجے تک آرام فرمائیں۔ حضرت درخواستیؒ اتنے بڑے آدمی تھے۔ لیکن مجال ہے کہ طبیعت میں ذرہ برابر تکدر آیا ہو۔ فرمایا! ہاں! آپ تقریر کریں۔ میں آپ کی تقریر سنوں گا۔ مولانا محمد علی جالندھریؒ کی تقریر لمبی ہوگئی۔ آپ گھنٹوں اسٹیج پر بیٹھے رہے اور پھر آخری خطاب فرمایا۔اس قسم کے ہزاروں واقعات ہوں گے کہ آپ نے جاں گسل محنت فرماکر ختم نبوت کے تحفظ کے لئے خدمات سر انجام دیں۔
	 ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں حضرت مولانا محمد شریف جالندھریؒ نے مولانا عبدالرؤف جتوئیؒ کو حضرت شیخ الاسلام مولانا محمد یوسف بنوریؒ کا پیغام دے کر خان پور بھیجا۔ پیغام سنتے ہی آپ بیماری کے باوجود لاہور کے لئے عازم سفر ہوگئے اور پھر حضرت بنوریؒ کے دست وبازو بن کر تحریک کے لئے پورے ملک میں سرگرم عمل ہوگئے۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی میں آپ کو بھٹو حکومت نے گرفتار کیا۔ غرضیکہ دینی مدارس سے لے کر دینی تحریکات تک‘ قدرت باری تعالیٰ نے ہمیشہ آپ کی ذات گرامی کو قائدانہ شان کے ساتھ کام کرنے کی توفیق سے نوازا۔
	آپ کے ہزارہا شاگرد علماء کرام ہیں جو اس وقت بھی پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ حجاز مقدس وغیرہ میں خدمت دین کا مقدس فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ آپ اپنے مدرسہ میں رمضان المبارک میں دورئہ تفسیر کا اہتمام فرماتے تھے۔ ایک زمانہ تھا آپ کا دورئہ تفسیر قرآن پورے ملک میں اپنی مثال آپ تھا۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ پون صدی تک حضرت درخواستیؒ بلاشرکت غیرے علماء حق کے قافلہ کے سرخیل رہے۔ جہاں آپ کے قدم پڑے وہاں پر اللہ رب العزت کی رحمت سے دین کے کام کو وہ ترقی ہوئی کہ! سبحان اللہ!
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter