Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

85 - 196
محمد دین پوریؒ اس خانقاہ کے بانی تھے۔ دین پور شریف کو تحریک آزادی میں دیوبند کے بعد دوسرا مقام حاصل تھا۔ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی تحریک ریشمی رومال میں دین پور کو مرکزیت حاصل تھی۔ حضرت مولانا عبیداللہ سندھیؒ اسی خانقاہ شریف کے چشم و چراغ تھے۔ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علیؒ نے اسی خانقاہ سے کسب فیض حاصل کیا۔ قطب وقت حضرت میاں عبدالہادی دین پوریؒ حضرت میاں غلام محمدؒ کے جانشین اور اس خانقاہ شریف کے سجادہ نشین تھے۔ حضرت درخواستیؒ کو سن شعور میں قدم رکھتے ہی قدرت حق کے کرم و فضل سے اس خانقاہ کا ماحول میسر آگیا۔ حضرت میاں غلام محمد دین پوریؒ کے زیر سایہ آپ نے تمام تر دینی تعلیم یہاں سے حاصل فرمائی۔ حضرت میاں صاحبؒ کی صحبت نے آپ کو کندن بنادیا۔
	 آپ نے تعلیم سے فراغت حاصل کرتے ہی سندھ و ریاست بہاولپور میں تبلیغی و تعلیمی خدمات انجام دینا شروع کیں۔ دین پور شریف کے قریب بڑا شہر خان پور ہے جو ضلع رحیم یار خان کی تحصیل ہے۔ یہاں پر آپ نے مخزن العلوم والفیوض کے نام سے مدرسہ کا آغاز کیا۔ جوانی کا عالم تھا۔ قدرت حق نے آپ کو درد مند دل سے نوازا تھا۔ آپ کی شبانہ روز محنت و جگر سوزی سے مدرسہ نے دنوں میں مثالی ترقی کی۔ پوری ریاست بہاولپور میں اس مدرسہ کو مرکزیت حاصل ہوگئی۔ حضرت درخواستیؒ کی تبلیغی سرگرمیاں تعلیم سے فراغت حاصل کرتے ہی شروع ہوگئیں۔ جو دیکھتے ہی دیکھتے عروج حاصل کرگئیں۔ آپ مخصوص حجازی لحجہ میں قرآن و حدیث کی تلاوت کرتے‘ لوگوں پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی۔ بلا مبالغہ گھنٹوں کھڑے ہوکر ایسی پر تاثیر تقریر فرماتے کہ لوگوں کی آہ و بکا فضا میں ارتعاش پیدا کردیتی۔ آپ اسباق کے بعد باقی وقت علاقہ میں دور دراز کا پیدل یا سائیکل پر سفر کرکے تقریروں کے لئے تشریف لے جاتے۔ آپ کی مقبولیت عنداللہ کا جوانی میں یہ عالم تھا کہ آپ برصغیر کے تمام اکابر علماء و مشائخ کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ شیخ الاسلام حضرت مدنیؒ‘ حضرت امیر شریعتؒ‘ مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ ایسے نابغہ روزگار شخصیات کے معتمد خصوصی سمجھے جاتے تھے۔ حضرت امیر شریعتؒ تو آپ کے اتنے قدر دان تھے کہ اسٹیج اور نجی محفلوں میں حضرت درخواستیؒ کی بہت تعریف فرماتے۔ ان کے علمی مقام سے لوگوں کو باخبر کرتے اور حضرت مرحوم کی طرف لوگوں کو کسب فیض کے لئے متوجہ فرماتے تھے۔ جوانی ہی میں قدرت نے آپ کو یہ مقام نصیب فرمایا تھا کہ حضرت لاہوریؒ کی وفات کے بعد آپ متفقہ طور پر جمعیت علماء اسلام کے مرکزی امیر منتخب ہوئے اور وفات حسرت آیات تک (نصف صدی سے بھی اوپر کے زمانہ میں) آپ جمعیت علماء اسلام پاکستان ایسی دینی و سیاسی جماعت کے امیر رہے۔
	 حضرت مولانا پیر خورشید احمد خلیفہ مجاز حضرت مدنیؒ‘ حضرت مولانا قاضی مظہر حسینؒ خلیفہ مجاز حضرت مدنیؒ‘ حضرت مولانا حبیب اللہ گمانویؒ‘ حضرت مولانا محمد عبداللہ بہلویؒ‘ حضرت مولانا عبدالعزیز سرگودھویؒ‘ حضرت مولانا محمد ابراہیمؒ میاں چنوں والے ایسے اکابر و بزرگان دین کا آپ کو اعتماد حاصل تھا۔ مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ‘ حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ ایسے ہزاروں علماء کرام نے آپ کی قیادت باسعادت میں جمعیت علماء اسلام کے اسٹیج پر وہ کارہائے نمایاں سر انجام دیئے جو تاریخ کا ایک سنہری اور انمٹ حصہ ہیں۔ خواجہ ناظم الدین کے زمانہ میں قادیانیت کے فتنہ کے خلاف‘ ایوب خان کے زمانے میں ڈاکٹر فضل الرحمن اور منکرین حدیث کے فتنہ کے خلاف‘ اسلام کی سربلندی کی تمام تر جنگ علمائے حق نے آپ کی قیادت میں لڑی۔ اسلامی نظام کے لئے جمعیت علماء اسلام کی تمام تر مساعی آپ کی توجہات عالیہ کی مرہون منت تھیں۔ مشرقی و مغربی پاکستان کا شاید و باید کوئی قصبہ ہو جہاں آپ نے تبلیغی سفر نہ فرمایا ہو۔ جگہ جگہ مدارس و مساجد کا قیام آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔ جہاں آپ تشریف لے جاتے وہاں پر مدرسہ بن جاتا۔ پاکستان کی کوئی دینی جماعت‘ کوئی دینی ادارہ ایسا نہیں جس کے لئے حضرت درخواستیؒ نے 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter