Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

82 - 196
دائودی کی نعمت سے نوازا تھا۔ مصری وحجازی لہجہ میں تلاوت کرتے تو اجتماع پر سکوت کا سماں بندھ جاتا۔ قاری صاحبؒ جس مجلس میں جاتے لوگ انہیں آنکھوں پر بٹھاتے اور وہ دلوں پر حکمرانی کرتے۔ ہر مجلس میں میر مجلس ہوتے تھے۔ حضرت اقدس مولانا خواجہ خان محمد صاحب دامت برکاتہم سے بیعت تھے۔ آپ کے محبوب مریدوں میں قاری صاحب کا شمار ہوتا تھا۔
	 قاری محمدصدیق صاحبؒ سے ہمارے مخدوم حضرت قاری ڈاکٹر محمدصولت نواز صاحب نے قرات کا رنگ پکڑا۔ مصر میں حضرت قاری عبدالباسط صاحبؒ کے ہاں جاکر شاگردی اختیار کی اور قاری عبدالباسط صاحبؒ کو فیصل آباد لانے میں کردار ادا کیا۔ قاری عبدالباسط صاحبؒ کا قیام ڈاکٹر صاحب کے ہاں تھا۔ قاری محمدصدیق صاحبؒ کی قاری عبدالباسط صاحبؒ ایسے شہرہ آفاق عالمی قاری سے ملاقات ہوئی جو یادگار تھی۔ دونوں حضرات اپنے فن کے ماہر تھے۔ تب قاری عبدالباسط صاحبؒ بھی قاری محمدصدیق صاحبؒ کی خداداد صلاحیتوں کے معترف ہوئے۔
	(آج کل ہمارے مخدوم ڈاکٹر محمدصولت نواز صاحب عارضہ کمر کے باعث صاحب فراش ہیں۔ قارئین سے دعا کی اپیل ہے کہ حق تعالیٰ انہیں ختم نبوت کے تحفظ کی خدمات کے صلہ میں صحت کاملہ عاجلہ مستمرہ سے سرفرازفرمائیں۔ آمین) 
	قاری محمدصدیق صاحبؒ اور آپ کے رفقاء اور شاگردوں کی کوشش سے سماعت قرآن کا ذوق حجرہ تدریس سے جلسہ عام کے سٹیج پر منتقل ہوا۔ قاری محمدصدیق صاحبؒ کو عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے حق تعالیٰ نے بہت اچھا ذوق دیا تھا۔ ختم نبوت کی تمام کانفرنسوں کو اپنی کانفرنس سمجھ کر دعوت کے تکلف کے بغیر تشریف لاتے۔ چناب نگر کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس پر تشریف لانا آپ کے معمولات کا حصہ تھا۔ جہاں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیرمرکزیہ‘ اپنے شیخ‘ کی زیارت سے سرفراز ہوتے وہاں آخری اجلاس میں تلاوت سے سامعین وحاضرین کو مستفیض کرتے۔ فقیرراقم نے عرصہ دوسال سے آپ سے تقاضہ پر تقاضا کیا کہ اپنے قابل اعتماد شاگرد کو تدریس کے لئے چناب نگر مدرسہ ختم نبوت میں متعین فرمائیں۔ ’’قابل اعتماد‘‘ کی شرط ان کے لئے وجہ تلاش بن گئی۔ اس لئے کہ وہ اتنے بڑے آدمی تھے کہ ان کے اعتماد پر اترنا ہر کسی شاگرد کے بس میں نہ تھا۔ اس سال مدرسہ ختم نبوت چناب نگر سے تین طالب علم ان کی خدمت میں تجوید کے لئے بھجوائے۔ لیکن قدرت کو یہی منظور تھا کہ اب وہ آپ کے بڑے صاحبزادہ حضرت مولانا قاری محمدصاحب سے پڑھیں گے۔ عرّفت ربی بفسخ العزائم!
	عرصہ پانچ سال سے دل کی تکلیف نے انہیں گھیرے میں لے لیا۔ پرہیز اور ادویات کے استعمال سے انہوں نے معمولات جاری رکھے۔ کبھی درس وتدریس میں بیماری کو حائل نہ ہونے دیا۔ وفات سے دو دن قبل تک بھی تعلیم جاری رکھی۔ پانچ چھ دن سے بوجھ محسوس کررہے تھے۔ ڈاکٹر معالج کو چیک اپ کرایا۔ انہوں نے سابقہ نسخہ کو جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔ آخری روز شام کو الائیڈہسپتال داخل کرایاگیا۔ ڈرپ لگی۔ ہنستے مسکراتے چند گھنٹوں میں قاری کلام اﷲ‘ اﷲ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگیا۔ رات گیارہ بجے کے قریب وصال ہوا۔ اگلے دن جمعرات کو گیارہ بجے دارالعلوم میں جنازہ ہوا۔ جامعہ دارالعلوم ربانیہ پھلور کے شیخ الحدیث اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی صاحبؒ کے شاگرد رشید حضرت مولانا حافظ نذیر احمد صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی۔ دارالعلوم کے قریبی بڑے قبرستان میاں کالونی میں سپردخاک ہوئے۔
	 تدفین کا واقعہ بھی بجائے خود وجہ استعجاب ہے۔ حضرت مفتی زین العابدینؒ نے ایک دن رفقاء سے میاں کالونی کے قبرستان کے ایک کونہ کے متعلق فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ دارالعلوم 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter