Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

80 - 196
حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ کے متوسلین اور جمعہ کے مستقل نمازی تھے۔ اس تعلق خاطر بنیاد پر اعلیٰ تعلیم کے لئے آپ کو دارالعلوم عید گاہ کبیروالا میں داخل کرادیا گیا۔ آپ کے اس زمانہ کے ساتھیوں میں حضرت مولانا خدابخش شجاع آبادیؒ بھی ہیں۔ اس وقت آپ کے اساتذہ میں سے محدث العصر حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی شیخ الحدیث باب العلوم کہروڑپکا زندہ باسلامت ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کو لمبی صحت والی زندگی نصیب فرمائیں۔ دورہ حدیث شریف آپ نے جامعہ خیرالمدارس ملتان سے کیا۔ فراغت کے بعد اپنے گائوں میں عرصہ تک فی سبیل اﷲ حفظ قرآن کی تعلیم دیتے رہے۔ بیسیوں حضرات نے آپ سے قرآن مجید مکمل حفظ کیا۔
	حضرت حافظ صاحبؒ شریف الطبع نیک سیرت انسان تھے۔ آپ کی محنتوں نے علاقہ بھر میں صورت حال کو یکسر بدل دیا۔ علاقہ کے بہت سارے حضرات نے آپ سے حفظ مکمل کیا۔ دینی تعلیم حاصل کی۔ اس وقت وہ ملک کے طول وعرض میں خدمت اسلام کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ جو آپ کے لئے ذخیرہ آخرت ہے۔موصوف سرائیکی کے رسیلے اچھے مقرر تھے۔ ان کی اردو بھی سرائیکی نما ہوتی تھی۔ آج سے تیس پینتیس سال قبل مولانا صوفی اﷲوسایاصاحبؒ ڈیرہ غازیخان میں عاشورہ محرم پر دسیوں بستیوں میں جلسوں کا اہتمام کرتے تھے۔ مولانا حافظ احمد بخشؒ کو بھی وہاں بھیجا جاتا۔ یوں مجلس سے ان کا تعلق قائم تھا۔ حضرت قاضیؒ سے آپ کا تعلق اور حضرت جالندھریؒ سے آپ کی عقیدت بھی قابل قدر وقابل رشک تھی۔ خود بڑے مزے لے لے کر سناتے تھے کہ ٹبی درکھاناں نزد شجاع آباد کا چالیس پینتالیس سال سے جاری سالانہ جلسہ میں حضرت جالندھریؒ تشریف لے جاتے تو حافظ صاحبؒ آپ کو شجاع آباد سے لاتے۔
	 ایک دفعہ حضرت جالندھریؒ کی مسئلہ خلافت پر یادگار تقریر ہوئی۔ آپ نے حضرات خلفائے ثلاثہؓ اور سیدنا علی المرتضیٰؓ خلیفہ چہارم کے باہمی تعلق کو بیان کیا تو پورا مجمع پر گریہ کی کیفیت طاری تھی۔ آپ کی تقریر کے بعد سیانی عمر کے لوگوں کا کہنا تھا کہ آج حضرت جالندھریؒ کی تقریر نے رفض کے اثرات کو کان سے پکڑ علاقہ سے نکال دیا ہے۔ تب شیعہ‘ سنی ایک دوسرے کے جلسہ میں بڑے اہتمام سے شرکت کرتے تھے۔ شیعہ حضرات بھی حضرت جالندھریؒ کی مدلل ومعتدل گفتگو پر دادتحسین دیئے بغیر نہ رہ سکے۔ اس قسم کے بیسیوں واقعات کے حافظ صاحب مرحوم چشم دید گواہ اور راوی یا صاحب واقعہ تھے۔ حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ سے آپ کی عقیدت عشق کی شکل اختیار کئے ہوئے تھی۔ 
	انہیں جماعتی تعلقات کی بنیاد پر حضرت مولانا حافظ احمد بخش صاحبؒ۱۹۷۹ء کے اواخر اور۱۹۸۰ء کے اوائل میں باضابطہ طور پر مجلس کے شعبہ تبلیغ سے وابستہ ہوگئے۔ رحیم یارخان میں آپ کا تقرر ہوا اور دم آخریں تک آپ وہاں تبلیغی خدمات انجام دیتے رہے۔ میٹھی طبیعت کے انسان تھے۔ ہر خورد وکلاں کے دل میں گھر کرگئے۔ حضرت مولانا قاری حماداﷲ شفیق مرحوم کی صحبت‘ حضرت مولانا غلام ربانی مرحوم کی تربیت نے آپ کو نکھاردیا۔ ضلع رحیم یارخان میں آپ نے تبلیغی کام کی دھاک بٹھادی۔ سرکلر روڈ پر آپ نے مجلس کا ملکیتی ضلعی دفتر تعمیر کرایا۔ ہر سال ضلعی ختم نبوت کانفرنس کراتے جس میں شیخ الاسلام حضرت مولانا محمدعبداﷲ درخواستی  ؒ! بڑے اہتمام سے شرکت فرماتے۔ اکثر وبیشتر صدارت خانقاہ دین پور کے سجادہ نشین حضرت مولانا میاں سراج احمد دین پوری مدظلہ فرماتے۔ سال بھر میں کم از کم ایک بار ضلع بھر کا تبلیغی دورہ رکھا جاتا۔ علماء ومبلغین کی مستقل جماعت گاڑیوں پر کاروان کی شکل میں چلتی اور ضلع کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کانفرنسوں اور جلسوں کا جال بچھادیا جاتا۔ آپ جہاں کہیں اپنے ضلع میں قادیانی فتنہ کی شرانگیزی کی خبر سنتے‘ جادھمکتے اور قادیانیت کو لگام ڈال دیتے۔ ضلع کے علمائے کرام سے آپ کام لینے کا گر جانتے تھے۔ جہاں جاتے کامیاب واپس لوٹتے۔ بہت ہی دیانت دار اور اجلی 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter