Deobandi Books

فراق یاراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

75 - 196
ہوئے ہیں۔ ان متذکرہ کانفرنسوں میں ان کا ساتھ رہا۔ معلوم کیا کہ وہ گلاسگو سے متصل مدرول قاری عبدالماجد صاحب کے ہاں ہیں۔ دھڑکتے دل سے فون کیا۔ دونوں طرف سے سسکیوں کے ماحول میں پتہ چلا کہ حضرت سید امین گیلانی صاحبؒ لاہور گھر پر تھے۔ فیصل آباد کے علماء گئے اورحضرت گیلانی صاحبؒ کو امادہ کرکے فیصل آباد لے آئے۔ ظہر کے بعد کھانا کھاکر کلمہ پڑھا۔ لیٹے داعی اجل کو لبیک کہا اور مالک الملک کو اپنی جان کی امانت لوٹادی۔
	حضرت سید امین گیلانی صاحبؒ نجیب الطرفین سید تھے۔ عادات واطوار میں خانوادہ رسولﷺ کے خون کا مکمل پرتو‘ جلوہ گرتھا۔ گورا رنگ‘ کھلا چہرہ‘ عقابی آنکھیں‘ لبوں پر مسکراہٹ‘ سمارٹ جسم‘ داڑھی کے بال خوبصورت چمکیلے‘ قد متوسط‘ بلند خیال‘ مترنم لحن دائودی‘ خاص ادا سے حمدونعت کے لئے طرح اٹھاتے تو ہزاروں کا اجتماع سردھننے لگ جاتا۔ نامور خطیب کی خطابت سے کہیں زیادہ ان کو ہر جگہ پذیرائی ملتی۔ کراچی سے خیبرتک ان کے نام کی دھاک تھی۔ عام وخاص میں یکساں محبوب ومقبول تھے۔ اٹھتی جوانی میں حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ کی صحبتوں کے اسیر ہوگئے۔
	حضرت سید امین گیلانی صاحبؒ نے مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ تقسیم سے قبل متحدہ ہندوستان کے ہر سٹیج پر ان کی موجودگی لازم قرارپائی۔ پاکستان بننے کے بعد حضرت امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ‘ خطیب پاکستان حضرت مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ‘ مجاہد ملت حضرت مولانا محمدعلی جالندھریؒ‘ مجاہد اسلام حضرت مولانا تاج محمودؒ‘ مناظر اسلام حضرت مولانا لال حسین اختر  ؒ‘فاتح قادیان حضرت مولانا محمدحیاتؒ‘ بلبل احرار حضرت مولانا عبدالرحمن میانویؒ ‘ مجاہد ختم نبوت حضرت مولانامحمدشریف جالندھریؒ‘ حضرت مولانامحمدشریف بہاول پوریؒ‘ اور دیگر اکابر نے مجلس تحفظ ختم نبوت کی بنیاد رکھی تو حضرت گیلانی صاحبؒ بھی اس کاروان ختم نبوت میں برابر کے شریک تھے۔ آپ کے ایمان افروز کلام کی مقبولیت نے یہ مقام حاصل کیا کہ دنیا زندگی بھر انہیں ’’شاعرختم نبوت‘‘ کے نام سے جانتی پہچانتی تھی۔
	 مجلس تحفظ ختم نبوت اور جمعیت علمائے اسلام کے اکابر کی آنکھوں کا تارا تھے۔ حافظ الحدیث حضرت درخواستی  ؒ‘حضرت مولانا مفتی محمودؒ‘ حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ‘ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اور ان کے جانشین حضرت مولانا عبیداﷲ انورؒ کی طرح پورے ملک کے شیوخ حدیث‘ علمائے کرام‘ مشائخ عظام کے ہاں کو خاص محبوبیت کا مقام حاصل تھا۔ یہ سب کچھ ان کے اخلاص بھرے عشق رسالت مآبﷺ کا صدقہ تھا۔ بلاشبہ وہ ایک بلند خیال شاعر اسلام تھے۔ اکابر کی صحبتوں نے انہیں دینی وسیاسی بصیرت کا اعلیٰ مرتبہ نصیب کیا تھا۔ ان کے خیالات کی بلند پروازی میں ان کے اعلیٰ کردار کا بھی بڑا حصہ تھا۔ وہ بہت بڑے عوامی‘ انقلابی اور اعلیٰ درجہ کے رہنما اور بلند کردار انسان تھے۔ دل کے غنی تھے۔ عسرت وسیرت میں مثالی اور نمونہ کی زندگی گزاری۔ قناعت پسند طبیعت تھی۔ کروفر سے کوسوں دور تھے۔ ان کی نظم کا ہر شعر پہلے سے زیادہ وقیع ہوتا تھا۔ ان کے کلام کی وسعتوں کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر شعرپر ان کو داد ملتی تھی۔ اپنے سامعین کو ایسا مدہوش کرتے تھے کہ لوگ فرش سے عرش تک پہنچ جاتے تھے۔ نعروں کی گونج میں سٹیج پر آتے اور نعروں کے سمندر میں تیرتے ہوئے کلام پڑھتے۔ ان کی ہر ادا دلربا ہوتی تھی۔ مدوجزر قابل دید ہوتا تھا۔ دین کے ہر شعبہ اور سیاست کی ہر جزئی پر ان کا کلام موجود ہے۔
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter